کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 233
لگانے لگے کہ حکم صرف اللہ کا ہے، اس بناء پر وہ جماعت المسلمین سے مفارقت اختیار کر گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ آپ نے ان سے بحث و مناظرہ کیا تو ان میں سے آدھے پلٹ آئے مگر باقی ماندہ لوگ عام مسلمانوں پر حملے کرنے لگے، ابن خباب رحمہ اللہ کو بھی قتل کیا اور خم ٹھونک کر کہنے لگے کہ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ اس بناء پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا۔ ان کے مذہب کی بنیاد یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کی بے انتہاء تعظیم کرتے ہیں اور اسی کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں لیکن سنت و الجماعت سے خارج ہیں کیونکہ وہ سنت جو ان کے زعم میں قرآن کے برخلاف ہو اس کی اتباع نہیں کرتے مثلاً رجم اور نصاب سرقہ وغیرہ۔ اسی بناء پر یہ گمراہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے آپ وہ سب کچھ زیادہ بہتر جانتے ہیں، خود اللہ نے آپ ہی پر کتاب بھی نازل کی ہے اور حکمت بھی۔ پھر یہ اس حد تک بڑھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے بارے میں اس بات کے قائل ہو گئے کہ آپ بھی ظلم کر سکتے ہیں۔ بنا بریں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطیع و فرمانبردار رہے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء کے حکم کے، بلکہ یہ زبان درازی کی کہ عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور ان کا ساتھ دینے والوں نے شریعت کے برخلاف فیصلہ کیا ہے اور:﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللّٰهُ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ﴾اور دیگر آیات کی بناء پر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں تو وہ دو مقدمات پر مبنی ہوتی ہے جو کہ باطل ہے۔ ایک یہ کہ یہ شخص قرآن کی مخالفت کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ قرآن کا مخالف کافر ہوتا ہے چاہے اسے غلطی لگی ہو اور چاہے وہ لغزش کی بناء پر گناہ کرتا ہو جبکہ اس کے وجوب و تحریم کو مانتا بھی ہو۔(ج 13 ص 208)