کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 232
خویش)ظاہر قرآن کے مخالف نہ ہو۔ بنا بریں نہ تو زانی کو رجم کرنے کے قائل ہیں اور نہ ہی چوری کے کسی نصاب وغیرہ کو مانتے ہیں بلکہ اس بناء پر شاید یہ بھی کہیں کہ قرآن میں مرتد کو قتل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ پھر شاید مرتد کی بھی ان کے ہاں دو قسمیں ہوں۔ خوارج کے اقوال و آراء، جو لوگ بیان کرتے ہیں، ہمیں بھی ان کے بارے میں صرف اسی ذریعہ سے علم ہو سکا ہے، ورنہ ان کی اپنی تصنیف کی ہوئی کوئی کتاب دستیاب نہیں ہو سکی۔(ج 13 ص 48) ٭ اصول بدعت کے ضمن میں یہ بات جان لیجئے کہ خوارج کی بدعت اس پر مبنی ہے کہ وہ خالی گناہ کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں، پھر جو کام گناہ نہیں بھی ہوتا اسے بھی گناہ قرار دے لیتے ہیں، اسی طرح قرآن مجید کی اتباع میں ایسی سنت کو قبول نہیں کرتے جو ظاہر قرآن کے خلاف ہو چاہے وہ حدیث متواتر کیوں نہ ہو۔ پھر اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے ہیں اور بزعم خویش اس کے مرتد ہو جانے کی بناء پر اس کے بارے میں وہ کچھ روا رکھتے ہیں جسے وہ اصل کافر کے بارے میں بھی جائز نہیں سمجھتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی ہی پیشین گوئی فرمائی تھی:(يقتلون اهل الاسلام، ويدعون اهل الاوثان)کہ ’’اہل اسلام کو تو قتل کریں گے اور اہل اصنام کو چھوڑ دیا کریں گے۔‘‘ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں تک کو کافر کہا ہے، اہل صفین کے دونوں گروہوں کی تکفیر اور اسی طرح کی دیگر زبان درازیاں کی ہیں۔(ج 3 ص 355) ٭ اسلام میں تفرقہ و بدعت کی ابتداء قتل عثمان رضی اللہ عنہ اور اس سے متصل افتراق و انتشار سے ہوئی ہے۔ پھر جب حضرت علی و معاویہ رضی اللہ عنہما تحکیم پر راضی ہوئے تو خوارج ان پر فتویٰ