کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 23
الاسلام رحمہ اللہ کے علاوہ دوسرا کوئی نظر نہیں آتا جس نے اس موضوع پر اس قدر تفصیل، گہرائی، باریکی اور جامعیت سے قلم اٹھایا ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان جلیل القدر ائمہ اعلام میں سے ہیں جن کے بارے میں اہل سنت سے نسبت رکھنے والے سبھی مسلمانوں کے مابین مذاہب اور طریق ہائے کار کے اختلاف کے باوجود اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہل سنت کی پوری تاریخ میں ان کو علم و عمل کے میدان میں بے انتہاء بلند مقام حاصل ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ائمہ سابقین کے علم و فضل کا وافر حصہ نصیب ہوا تھا اور وہ صرف علم و حفظ ہی نہیں فہم و تفقہ اور باریک بینی میں بھی یکتا تھے۔ اس کی تفسیر و تفہیم اور شرح و تفصیل میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے وہ جوہر دکھائے کہ عظیم ترین مقام پر فائز ہوئے۔ بلکہ یہ کہنے میں شاید کوئی مبالغہ یا غلو نہ ہو کہ ان کے بعد آنے والے بیشتر ائمہ جنہوں نے اس علمی ورثے پر دیرپا نقوش چھوڑے ہیں، کی تحریریں اس میدان میں انہی کی مرہون منت نظر آتی ہیں بلکہ بیشتر تو انہی کی تحریروں کی بازگشت اور مختلف شکل و صورت میں انہی کی شروح و تفاسیر دکھائی دیتی ہیں، گویا یہ سب اسی کا پھیلاؤ ہے۔ مزید برآں اس جلیل القدر امام نے جو معرکہ خیز زندگی گزاری ہے اور فکری، علمی، عملی اور منہجی لحاظ سے پرفتن دور سے گزرے ہیں، اور جن آزمائشوں سے اس دور میں اہل سنت دوچار رہے ہیں ان سب کی امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہادات و فتاویٰ تک میں نمایاں جھلک موجود ہے۔ اس سلسلے میں نہایت باریک بینی اور گہرائی سے موجودہ دور کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کتاب میں ہم صرف ان کے وہ اقوال نقل کریں گے جن کے بارے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے خود اہل سنت و الجماعت کی ترجمانی کی صراحت کی ہے۔ یوں یہ ان کا ایسا ذاتی فتویٰ یا اجتہاد نہیں رہتا