کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 228
میں کیا خیال ہے؟ فرمانے لگے: یہ لوگ تو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی نہیں ہیں۔ فرمایا کرتے تھے: یہودونصاریٰ کا کلام تو نقل کیا جا سکتا ہے مگر جہمیہ کا کلام زبان پر لانا ممکن نہیں ہے۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے اس موقف میں امام احمد رحمہ اللہ کے بعض تلامذہ اور کچھ دیگر اہل علم نے ان کی پیروی کی ہے۔ چنانچہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جہمیہ کفار ہیں اور ان بہتر فرقوں تک میں داخل نہیں ہیں، جس طرح کہ وہ منافقین بھی ان میں شامل نہیں جو باطن میں کفر اور ظاہر میں اسلام رکھتے ہیں۔ ان کو زنادقہ بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم امام احمد رحمہ اللہ کے دیگر تلامذہ اور دوسرے اہل علم کا موقف ہے کہ جہمیہ بہتر فرقوں میں داخل ہیں اور اس بناء پر وہ اصول بدعت پانچ سمجھتے ہیں۔(ج 3 ص 350) ٭ اہل اھواء کی ترتیب و تقسیم کی بابت علماء مختلف انداز رکھتے ہیں: بعض لوگ ان فرقوں کو زمانہ ظہور کے لحاظ سے ترتیب دیتے ہیں یہ حضرات، خوارج سے شروع کرتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ بدعت اور گمراہی میں سب سے ہلکے فرقے سے ترتیب شروع کرتے ہیں، اسی بناء پر یہ حضرات مرجئہ سے آغاز کرتے ہیں اور جہمیہ کا نمبر آخری رکھتے ہیں۔ موخر الذکر طریقہ امام احمد رحمہ اللہ کے بیشتر تلامذہ نے اختیار کیا ہے جن میں امام عبداللہ بن احمد وغیرہ، امام خلال اور ابو عبداللہ بن بطہ رحمہم اللہ وغیرہ ایسے بزرگ اور اسی طرح امام ابو الفرج مقدسی رحمہ اللہ ایسے اہل علم شامل ہیں۔ یہ سب حضرات اہل بدعات کا ذکر کرتے ہیں تو تان جہمیہ پر ہی ٹوٹتی ہے کیونکہ اہل بدعات میں یہی لوگ غلیظ ترین ہیں۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری میں كتاب الايمان والرد علي المرجئة سے آغاز کیا ہے اور كتاب التوحيد والرد علي الزنادقة والجهمية پر اختتام فرمایا ہے۔(ج 13 ص 49)