کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 222
اختلاف نہیں۔ بلکہ ان کے کافر ہونے میں جو شک کرے وہ بھی انہی کی طرح کافر ہے۔ نہ تو یہ اہل کتاب کے درجے میں آتے ہیں اور نہ ہی مشرکین کے درجے میں، بلکہ یہ کفار اور گمراہ ہیں، ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے۔ ان کی عورتوں کو لونڈیاں اور ان کے مال کو مال غنیمت بنایا جائے گا کہ یہ زندیق اور مرتد ہیں، ان کی توبہ تک قبول نہیں کی جائے گی بلکہ جہاں بھی قابو آئیں قتل کئے جائیں گے۔ اپنے اوصاف کی بدولت ان پر لعنت بھی جائز ہے ان کو پہرپ داری، چوکیداری یا حفاظت ایسے کاموں میں ملازم بھی رکھنا جائز نہیں ہے۔ ان کے علماء ہوں یا صلحاء سب واجب القتل ہیں تاکہ دیگر مخلوق کو گمراہ نہ کریں۔ نہ ان کے ہاں یا ان کے گھروں میں سونا جائز ہے، نہ ان کی مرافقت اور نہ ان کے ساتھ چلنا جائز ہے۔ پھر جب ان کی فوتیدگی کا پتہ چلے تو ان کے جنازوں کے ساتھ چلنا تک جائز نہیں ہے۔(ج 35 ص 162) ٭ چنانچہ کسی بھی بشر کے بارے میں جو شخص اللہ ہونے کا اعتقاد رکھے یا کسی مردے سے دعا کرے، یا اس سے رزق نصرت یا ہدایت کا طلب گار ہو، اس پر توکل کرے یا اس کو سجدہ کرے، تو ایسے شخص سے توبہ کرائی جائے گی اگر کر لے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن تن سے جدا کر دی جائے گی۔ جو شخص مشائخ میں سے کسی کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر افضیلت کا قائل ہو یا یہ اعتقاد رکھے کہ کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مستغنی و بے نیاز ہے، اس سے بھی توبہ کرائی جائے گی اور نہ کرے تو اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔ اسی طرح جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ اولیاء میں سے کسی کی حیثیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ خضر، تو ایسے شخص کو بھی توبہ کرانی چاہیے ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے