کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 216
اہل سنت و الجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ تمام لوگ جن کی خیر سے نسبت معروف ہے مثلاً معروف صحابہ رضی اللہ عنہم جو اہل جمل اور اہل صفین میں کسی جانب شریک رہے ان میں کسی کو کافر تو کجا، فاسق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، حتیٰ کہ فقہاء کی ایک جماعت نے اس حکم کو تمام اہل بغی کے بارے میں عام رکھا ہے چنانچہ اس کے باوجود کہ وہ ان لوگوں سے قتال کا حکم دیتے ہیں مگر تاویل کرنے کی وجہ سے وہ ان پر فسق کا حکم لگانا ممنوع سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ان فقہاء کا یہ مسلک ہے کہ تاویل کی وجہ سے ایسی نبیذ پینے والے کو جس کے بارے میں اختلاف ہو، کوڑے لگائے جائیں گے نہ فاسق کہا جائے گا۔(ج 13 ص 495) ٭ ان لوگوں(جہمیوں)کے بیشتر اقوال بسا اوقات بہت سے اہل ایمان سے مخفی رہ جاتے ہیں تاآنکہ ان کے وارد کردہ شبہات کی بناء پر وہ یہ تک بھی گمان رکھ بیٹھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں جبکہ یہ اہل ایمان(جن کو شبہ ہوا ہے)ظاہر و باطن میں اللہ کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چکر میں آئے ہوتے ہیں جیسا کہ بدعتی لوگوں کی بعض دوسری اصناف بھی تلبیس و شبہہ کا شکار ہوئی ہیں۔ چنانچہ ایسے لوگ قطعاً کافر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ فاسق ہوتے ہیں اور کچھ عاصی(نافرمان)جبکہ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو غلطی پر اور قابل مغفرت ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے کسی شخص میں ایمان اور تقویٰ اس حد تک ہو کہ اپنے ایمان اور تقویٰ کے بقدر اللہ کے ساتھ دوستی و وفاداری اور وابستگی کا رشتہ ہنوز قائم ہو۔(ج 3 ص 355) ٭ بدعات کے حاملین میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن میں باطناً اور ظاہراً ایمان ہوتا