کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 215
پر ہو گا مگر اس کو باغی کہنے سے اس کا فاسق ہونا تو دور کی بات ہے آثم(گناہ گار)ہونا بھی لازم نہیں آتا۔ اور وہ لوگ بھی جو تاویل پر رہنے والے باغیوں کے ساتھ قتال کے قائل ہیں وہ بھی ان سے قتال کے وجوب کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اس قتال کا مقصد ان کی بغی کی ضرر سے دفاع ہے نہ کہ بطور سزا، بلکہ ان کو زیادتی سے روکنے کے لئے ہے۔ چنانچہ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ان کی عدالت بدستور باقی ہے اور فاسق نہیں ٹھہرتے، ان کو بزور اور قتال کے ذریعے سے روکنے کے بارے میں ان کی توجیہ یہ ہے کہ ان کی صورتحال غیر مکلف کی سی ہے مثلاً بچے یا پاگل کو کسی زیادتی کے ارتکاب سے بہرحال روکا جاتا ہے ایک بے ہوش، خوابیدہ یا بھولے ہوئے انسان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ حیوانات تک کو بھی زیادتی کرنے یا کسی کو نقصان پہنچانے سے بعض رکھا جاتا ہے۔ بایں طور قتل خطاء کی بناء پر بھی بنص قرآن دیت واجب ہو جاتی ہے حالانکہ اس پر کوئی گناہ لازم نہیں آتا، یہی صورتحال اس آدمی کی ہے جو امام وقت پر خروج کر بیٹھے اور قابو آنے اور حد قائم ہو جانے کے بعد توبہ کر لے جبکہ یہ ثابت ہے کہ ایک گناہ سے توبہ کر لینے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ متاول(تاویل کرنے والا)باغی، امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مستوجب سزا ہے اور ایسے متعدد واقعات مذکور ہیں۔ پھر اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اس سے بغی، تاویل کے بغیر سرزد ہوئی ہے پھر بھی وہ ایک گناہ ہی قرار پائے گا جبکہ گناہوں کا عذاب متعدد اسباب کی بناء پر ٹل سکتا ہے، مثلاً نیکیاں جو گناہوں کو مٹاتی ہیں یا مصائب جو گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔(ج 35 ص 76)