کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 214
نزدیک مشروبات کی بعض انواع حلال ہیں اسی طرح بعض کے نزدیک بعض مبنی بر سود معاملات جائز ہیں اور بعض لوگ حلالہ و متعہ کے بعض عقو کو درست خیال کرتے ہیں، غرض اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں جو بزرگان سلف تک کے ہاں بھی مل جاتی ہیں۔ چنانچہ جو لوگ مجتہد ہیں ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ غلطی کر بیٹھے ہیں جبکہ قرآن میں آیا ہے:﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ﴾’’اے اللہ! ہماری بھول چوک اور غلطیوں کی پکڑ نہ کرنا۔‘‘ پھر صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی استجابت فرمائی ہے۔(ج 5 ص 75) ٭ قرآن میں حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کھیتی کے بارے میں ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، چنانچہ اس کے باوجود کہ علم و حکمت رکھنے کی بناء پر دونوں کی تعریف کی ہے مگر علم و حکمت ہی کے بارے میں ایک(حضرت سلیمان علیہ السلام)کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ اب علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ چنانچہ کوئی عالم اگر ایسا مسئلہ نہیں سمجھ پایا جو دوسرے کو سمجھ میں آ گیا تو نہ اس سے کوئی ملامت لازم آتی ہے اور نہ ہی اس کے معروف علم و دین کو قبول کر لینے میں یہ بات مانع ہے۔ ہاں اگر اسے صحیح حکم کا علم ہو تو پھر یہ کام اثم(گناہ گاری)اور ظلم شمار ہو گا اور اس پر اصرار فسق، بلکہ جب اس کی حرمت قطعی اور حتمی طور پر معلوم ہو جائے تو اس کو حلال قرار دینا کفر بھی ہو گا۔ چنانچہ بغی اسی باب سے ہے۔(ج 35 ص 75) ٭ تاہم باغی(بغی کا مرتکب)اگر اجتہاد یا تاویل پر ہو اور اس پر یہ نہ کھل سکا ہو کہ وہ بغی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ حقیقتاً وہ یہ باور کرتا ہو کہ وہ حق پر ہے تو اگرچہ وہ ایسا باور کرنے میں غلطی