کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 211
تجاوز کر چکا ہوتا ہے کیونکہ اس نے حق کے کسی امر کا انکار کیا ہوتا ہے اور باطل کے کسی ایک حصے کا قائل بھی ٹھہر چکا ہوتا ہے۔بنا بریں اس نے ایک بڑی بدعت کو ایک نسبتاً چھوٹے باطل کے ذریعے دفع کیا ہوتا ہے۔ سنت و جماعت سے منسوب بیشتر اہل کلام کی یہی صورتحال ہے۔ اور اس قسم کے لوگوں کی بدعت اگر اس درجے کو نہ پہنچے کہ وہ اس کی بناء پر جماعت مسلمین سے مفارق ٹھہرتے اور اسی کی بناء پر ولاء و عداوت رکھتے ہوں، تو وہ خطا کی نوع اور زمرے میں آتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس قسم کے امور میں مومنین کی خطا معاف کرنے والا ہے۔(ج 3 ص 348) بعض اوقات نیکیوں کے ساتھ برائیاں بھی ہوتی ہیں، قابل معافی بھی اور قابل گرفت بھی، اور بعض اوقات دین پر چلنے والے کے لئے بالکل اصلی اور صحیح مشروع طریقے پر چلنا ممکن یا آسان نہیں ہوتا اور چار و ناچار، علم و عمل میں بالکل صحیح روش پر چلنے والوں کے میسر نہ ہونے کے باعث، ایک گونہ بدعتی امور اس میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ اگر صاف شفاف روشنی میسر نہیں ہے، یعنی اگر ہے تو ایسی جو بالکل صاف ہیں اور آدمی نے اسے بھی نہ لیا ہوتا تو بالکل اندھیرے میں رہتا، تو ایک ایسی روشنی کی عیب جوئی یا اس سے منع کرنا درست نہیں جس میں کچھ اندھیرا ہے، الا یہ کہ ایسا نور میسر آ جائے جس میں کوئی ظلمت نہ ہو۔ ہر ایسا راستہ جس میں کچھ ظلمت اور اندھیرا نظر آئے چھوڑا اور چھڑایا جانے لگے تو کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو کم نور کو چھوڑتے چھوڑتے گھپ اندھیرے ہی میں جا بیٹھیں گے! یہ قاعدہ اس لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ سلف اور علماء نے جن امور کی مذمت کی ہے یا برا جانا ہے اس مذمت کو اس کے مطلب کی حد تک رکھا جائے اور یہ ذہن نشین کرنے کے