کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 210
عطا کرے اور جو اس سے اخطا(غلطیاں)سرزد ہوئی ہیں ان سے درگزر فرمائے کہ اس نے فرما رکھا ہے:﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ﴾’’اے اللہ! اگر ہم سے بھول ہو جائے یا ہمیں غلطی لگ جائے تو ہماری پکڑ نہ فرما۔‘‘(البقرۃ)اہل سنت ہر اس شخص کو نجات کے پر عزم طور پر قائل ہیں جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، جیسا کہ قرآن نے کہہ رکھا ہے۔ تاہم جہاں تک کسی شخص کو متعین کیے جانے کا تعلق تو اس کے بارے میں اس بناء پر توقف کرتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں آیا وہ متقین(تقویٰ اختیار کرنے والوں)میں شامل ہے یا نہیں۔(ج 20 ص 166) ب: اجتہاد خطاء اور تاویل بعید مخالفین مذہب سنت میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو(اہل)سنت کی جنگ لڑتے ہیں اور دشمنوں کے سامنے مذہب سنت کا دفاع کرتے ہیں لیکن اس دوران بعض اوقات ایک غلط اجتہاد یا دور کی تاویل کی وجہ سے اہل سنت کی مخالفت بھی کر لیتے ہیں، جس کی بناء پر ان میں دونوں مجتمع ہو جاتے ہیں: سنت بھی اور بدعت بھی، روشنی بھی اور ظلمت بھی، چنانچہ ایسے لوگ معذور ہیں خاص طور پر جب سنت کا واضح جلی علم موجود نہ ہو۔ ٭ یہ بات علم میں ہونی چاہیے کہ وہ طوائف(جماعتیں)جو اصول دین اور کلام میں(متبوع)شخصیات سے منسوب ہیں ان کے مختلف درجات ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو ’’اصول‘‘ عظیمہ میں مذہب سنت کی مخالفت کرتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو صرف دقیق(پیچیدہ)امور ہی کی مخالفت کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ شخص، جو ان طوائف کا رد کرتا ہے جو مذہب سنت سے اس کی نسبت دور تر ہوتے ہیں، تو جس قدر اس نے باطل کا رد کیا اور حق کی بات کی ہے اس قدر وہ قابل مدح و ستائش ہے تاہم یہ شخص اپنے رد میں عدل سے بھی