کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 21
نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد حیران و ششدر نظر آتی ہے جو واضح اور صریح جوابات کی تلاش میں لگی رہتی ہے تاکہ ٹھوس اور متوازن قسم کا معیار و مقیاس مل جائے جسے موجودہ دور کے حالات پر فٹ کر کے صحیح صحیح حکم لگایا جا سکے۔ موجودہ دور کی جماعتوں، گروہوں، تنظیموں اور تحریکوں کی حیثیت طے کی جا سکے اور فرقہ ناجیہ سے ان سب کے تعلق کی نوعیت واضح ہو سکے چاہے اس کا کوئی بھی نام یا پہچان ہو، خواہ وہ اس نام یا پہچان سے اپنے آپ کو متعارف کرائے یا دوسرے لوگ اس کو کوئی اور نام دیتے ہوں۔ ہم اس بات کی شروع ہی سے وضاحت کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ معیار اور میزان مجموعی طور پر نہ تو ہمارے کسی اجتہاد کا نتیجہ ہے نہ کسی اور کے اجتہاد کا، بلکہ صحابہ کرام تک کا اجتہاد نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ان کو اور پھر ہمیں لفظاً و معناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اور پھر ان کے بعد ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگوں نے اگر کچھ کیا ہے تو اسے صرف عملی طور پر پیش کیا ہے۔ تاآنکہ یہ علمی شرح و بسط کی صورت میں نظر آتا ہے اور کتابی قواعد کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ تاہم جیسے ہم نے پہلے عرض کی ہے یہ قواعد و اصول اہل سنت کے علماء کی کتابوں کو جمع کرنے کی حد تک اپنی سی ایک کاوش کی ہے۔ یقیناً اس سے زیادہ علمی، جامع اور وسیع بحوث کا راستہ بھی کھلا ہے اور گنجائش بھی موجود ہے۔ ہم نے موجودہ اسلامی لٹریچر میں اس موضوع کا احاطہ کرنے والی جامع قسم کی تحقیق کی خاصی تلاش کی ہے مگر مل نہ سکی۔ بلکہ جامعات میں لکھے جانے والے مقالات میں سے بھی کثرت اور تنوع سے پائے جانے کے باوصف کوئی ایسا جامع تحقیقی مقالہ نہ مل سکا جو اس