کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 205
اس طرح کتاب اور سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس وقت تک عذاب نہ دے گا جب تک اسے رسالت نہ پہنچی ہو۔ اب جسے رسالت(بالجملہ)بالکل ہی نہ پہنچی ہو اسے تو سرے سے عذاب نہ ہو گا اور وہ شخص جسے رسالت بالجملہ تو پہنچی ہو مگر اس کی کوئی تفصیل رہ گئی ہو تو اسے صرف اس بات کے انکار پر عذاب ہو گا جس کی اس پر رسالت کے ساتھ حجت قائم ہو چکی ہو۔۔ چنانچہ وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان لا چکا ہے مگر بعض ایسے امور کا اسے علم نہیں ہوا جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں اس بناء پر وہ ان امور کے ساتھ ایمان مفصل نہ لا سکا، یا تو اس نے ان کے بارے میں سن ہی نہیں رکھا اگر سنا ہے تو ایسے ذریعے سے جس کی تصدیق واجب نہیں ہے، یا پھر وہ کسی ایسی تاویل وغیرہ کی بناء پر جو قابل عذر ہے کسی اور مطلب و معنی کا اعتقاد رکھتا ہے، تو ایسا شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایمان رکھتا ہے جس پر اللہ کی طرف سے ثواب کا مستحق ہے اور جن باتوں کے ساتھ وہ ایمان نہیں لا سکا تو اس سلسلے میں اس پر وہ حجت قائم نہیں ہوئی جس کا مخالف کافر قرار پاتا ہے۔ اسی طریقے سے کتاب، سنت اور اجماع سے یہ بھی ثابت ہے کہ دین میں ایسی خطا(غلطی)بھی ہو سکتی ہے جس(کی بناء)پر مخالف کافر یا فاسق قرار نہیں پاتا بلکہ گناہ گار بھی نہیں ہوتا مثلاً فرع عملیہ۔۔ تاہم فروع عملیہ میں ایسے مسائل ہیں جن میں مخالفت کرنے والے کا، نصوص اور اجماع قدیم کی رو سے غلط ہونا ثابت ہے۔ مثلاً سلف اور خلف میں سے بعض لوگوں نے سود کی بعض انواع کو جائز قرار دیا ہے اسی طرح کچھ اور لوگوں نے