کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 204
اور میرے صحابہ ہیں‘‘ چنانچہ یہ عقائد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ماثور ہیں اور یہ حضرات اور ان کے پیچھے چلنے والے ہی فرقہ ناجیہ ہیں۔ مگر ہر اس شخص کا جو ان عقائد میں سے کسی بات کی مخالفت کرتا ہے لازمی طور پر ہلاکت میں پڑنا ضروری نہیں، کیونکہ منازع یا مخالف بسا اوقات اجتہاد کی بناء پر غلطی کر سکتا ہے اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے یا بعض اوقات یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی بات کا علم نہ ہوا ہو جس سے اس پر حجت قائم ہو سکے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی نیکیاں اس کی برائیوں کو مٹانے کے قابل ہو جائیں۔ جب ایسی صورت ہے کہ کسی وعید کے الفاظ کی زد میں آنے کے باوجود ایک متاول(تاویل کرنے والے)، قانت(خوف اور خشوع رکھنے والے)شخص جس کے گناہ اس کی نیکیوں کے ہاتھوں مٹ سکتے ہیں جو قابل مغفرت ہو، اس کا وعید میں لازمی اور قطعی طور پر داخل ہونا ضروری نہیں ہے تو ایسا شخص تو ان سے اولی ہے۔ عقائد فرقہ ناجیہ کے بارے میں ہماری بات کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے ہو سکتا ہے اس کی نجات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے نجات نہ ہو جیسے کہا جاتا ہے(من صمت نجا)’’جو چپ رہا وہ نجات پا گیا۔‘‘(ج 3 ص 179) ٭ جب قرآن کی سنت پر مبنی تفسیر سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو خطا(غلطی لگ جانا)اور نسیان(بھول جانا)معاف درگزر کر دیا ہے تو یہ عام ہے اور اس کا عموم باقی ہے جبکہ شریعت سے کوئی ایسی دلالت نہیں ملتی کہ اللہ تعالیٰ اس امت میں سے کسی مخطی(خطا کھانے والے)کو اس کی خطا پر عذاب دے گا، ہاں اگر دوسری امت میں کسی مخطی کو عذاب دے تو اور بات ہے۔۔