کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 20
جا سکتے تھے، مثلاً ’’اہل سنت و الجماعت‘‘ کون لوگ ہیں؟ مسلمان کب اس جماعت میں شامل ہوتا ہے اور کب اس سے خارج ہو جاتا ہے؟ اور کیا اس جماعت کا ایک فرد ہونے سے مطلق نجات یقینی ہے؟ ’’مفارق جماعت‘‘ کون لوگ ہوتے ہیں؟ اور کیا سبھی مفارقین جماعت فرداً فرداً بھی ہلاکت میں پڑنے والے ہوں گے؟ ایسے لوگوں کے بارے میں اہل سنت کا کیا مؤقف ہے؟ ان سے کیا طرزعمل اور رویہ رکھا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔ تو جب یہ ’’جامع اور متوازن میزان‘‘ ابہام اور دھندلاہٹ کا شکار ہوا تو اس کے اثرات مرتب ہونا یقینی تھے۔ چنانچہ عام مسلمان تحریکیں دو انتہاؤں کی طرف چل دیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اہل سنت اور دیگر فرقوں میں تمیز ہی ختم کر دی۔ نتیجتاً ان کے ہاں اہل سنت اور غیر اہل سنت میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔ ان حضرات کے گمان میں ’’سبھی فرقوں کی نجات ہو جائے گی یہ سب فرقے اجتہادی اختلافات کے سبب معرض وجود میں آئے ہیں اور یہ سبھی راستے ایک ہی منزل کی طرف جاتے ہیں۔‘‘ یہ ذہن خاصا عام ہے۔ اگرچہ زبان سے کوئی نہ کہے، مگر حقیقت میں بہت سوں کا یہی خیال ہے۔ اس ذہن کے بہت سے لوگوں نے تو فرقوں(تہتر فرقوں اور صرف ایک فرقہ ناجیہ کی پیشین گوئی)والی مذکورہ حدیث تک میں تشکیک پیدا کرنی شروع کر دی ہے۔ اس صنف کے برعکس بعض دوسرے گروہوں نے اپنے اپنے گرد، اپنے اپنے خیال سے کچھ حدود بنا رکھی ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ حدود اہل سنت، طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ کی امتیازی حدود ہیں۔ یہ اعتقاد تک رکھنا شروع کر دیا کہ صرف وہ اور ان کے ہم فکر حضرات ہی اہل سنت، طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ ہیں اور دیگر سب لوگ اہل بدعت، اہل تفرق اور اختلاف و گمراہی کے حامل ہیں۔ ان دونوں کے بیچ تحریکی