کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 194
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر نہیں کیا پھر جو ویسے ہی نصوص کے برخلاف ہو وہ تو بالاتفاق بدعت ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے ایک قول مروی ہے:(انا اقل العلم ظهر الجفا وانا قلت الآثار كثرت الاهواء)کہ ’’جب علم کم ہو جاتا ہے تو جفا میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جب آثار(احادیث و مرویات)کم ہو جائیں تو اھواء و خواہشات زیادہ ہو جاتی ہیں۔‘‘ بنا بریں بے شمار ایسے لوگ ملتے ہیں جو ایسی اھواء کی وجہ سے کسی سے محبت اور کسی سے بغض و نفرت رکھتے ہیں جن کے نہ معنی کا ان کو علم ہوتا ہے اور نہ دلیل کا۔ بس وہ مطلق انہی باتوں کی بناء پر کسی سے محبت و تعلق رکھتے ہیں اور کسی سے بغض اور دشمنی حالانکہ نہ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر منقول ہوتی ہیں اور نہ سلف امت سے بلکہ ان کے مطلب و معنی کو خود بھی نہیں سمجھ رہے ہوتے اور نہ ہی ان کے نتائج اور تقاضوں کو جانتے ہیں۔ اس کی وجہ ایسے اقوال کو علی الاطلاق قبول کر لیتا ہے جو منصوص نہیں، ان کو مذاہب بنا کر ان کی طرف دعوت اور پھر اس کی بناء پر دوستی اور دشمنی(کے معیار قائم)کرنا ہے، جبکہ صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے:(إنّ أصْدقَ الكلامِ كلامُ اللّٰه)کہ ’’بے شک و شبہ سب سے سچا کلام اللہ کا کلام ہے۔‘‘ لہٰذا مسلمانوں کا دین تو کتاب اللہ، سنت نبوی اور اجماع امت کی اتباع پر مبنی ہے اور صرف یہی تین اصول معصوم ہیں، پھر جس مسئلے میں امت کا نزاع ہو جائے اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیا جائے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ امت کے لئے سوائے نبی کے کسی شخص کو ایسے منصب پر فائز کرے کہ اس کے طریقے کی دعوت دے، اس کی بناء پر دوستی اور دشمنی رکھے۔ بلکہ یہ ان اہل بدعات کا فعل ہے جو اپنے لیے کوئی بھی ایسا شخص یا ایسا کلام مقرر کر لیتے ہیں جس سے نسبت کی بناء پر ہی وہ