کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 190
اس کے رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم نے قابل مذمت ٹھہرایا ہے۔ ٭ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء راشدین کے عہد میں ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو بے تحاشا عبادت کرنے کے باوجود اسلام سے منسوب بھی تھے مگر اس کے خلاف بغاوت اور خروج کرنے والے بھی تھے حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کرنے کا بھی حکم دیا، تو اس سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے کہ اس دور میں اسلام سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والے بھی اسلام اور اہل سنت سے بغاوت اور خروج کر سکتے ہیں حتیٰ کہ اہل سنت کا دعویٰ بھی ایسے لوگ کر سکتے ہیں جو اہل سنت ہوتے نہیں، بلکہ ان سے قطعی طور پر خارج ہوتے ہیں۔ اس کے اسباب میں سے ایک غلو بھی ہے جیسے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے انتہاء قابل مذمت ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللّٰهِ إِلَّا الْحَقَّ﴾’’اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر ایسی کوئی بات مت کہو جو حق نہ ہو‘‘۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما رکھا ہے:(إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ)’’خبردار، دین میں غلو سے باز رہنا، تم سے پہلوں کو دین میں غلو ہی تباہ و برباد کیا ہے‘‘ اور یہ حدیث صحیح ہے۔ انہی اسباب میں سے ’’تفرقہ‘‘ اور ’’اختلاف‘‘ ہے جن کا اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں عزیز میں ذکر کر رکھا ہے۔ انہی اسباب میں سے وہ احادیث بھی ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہیں مگر اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صاف جھوٹ ہے۔ ایک جاہل جب ان جھوٹی(موضوع)احادیث کو سنتا ہے تو چونکہ وہ اس کے ظن اور ہوائے نفس کے مطابق ہوتی ہے