کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 185
فادركتهم العصر في الطريق، فقال قوم لا نصلي الا في بني قريظة ففاتهم العصر، وقال قوم، لم يرد مناتا خير الصلاة فصلوا في الطريق فلم يعب واحدا من الطائفتين)کہ ’’کوئی شخص نماز عصر بنی قریظہ پہنچے بغیر ادا نہ کرے(صحابہ رضی اللہ عنہم چلے)تو ان کو راستے ہی میں وقت عصر نے آ لیا۔ کچھ لوگ کہنے لگے ہم تو بنی قریظہ ہی میں نماز ادا کریں گے چنانچہ ان کی نماز عصر فوت ہو گئی۔ کچھ لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ نماز لیٹ کریں چنانچہ انہوں نے راستہ ہی میں نماز ادا کر لی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ کہا۔‘‘ امام بخاری اور مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں بروایت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ حدیث ذکر کی ہے۔ یہ مسائل احکام کے دائرے میں آتے ہیں چونکہ یہ اہم ’’اصول‘‘ میں نہیں اس لئے احکام ہی میں شمار ہوتے ہیں۔(ج 24 ص 172-174) (4) اس بات پر تو تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جو شخص(توحید اور رسالت)دونوں شہادتیں نہیں دیتا وہ کافر ہے، تاہم جہاں تک اعمال اربعہ(نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج)کا تعلق ہے ان کے تارک کی تکفیر(کافر قرار دئیے جانے)کے بارے میں ان میں اختلاف موجود ہے۔ چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں ہو سکتی(یعنی کسی کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا)تو اس سے ہماری مراد زنا یا چوری جیسے گناہ اور معاصی ہیں۔ تاہم جہاں تک(اسلام کے)ان ارکان کا تعلق ہے تو ان کے تارک کے کافر ہونے کے بارے میں نزاع مشہور ہے۔(ج 7 ص 302) (5) اسی طرح اس مسئلے میں بھی مسلمانوں کے مابین اختلاف موجود ہے کہ آیا