کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 184
وہی حق ہے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف ہے جبکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مردے جوتے کی چاپ کو سنتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے:(وما من رجل يمر بقبر الرجل كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه، الا رد اللّٰه عليه روحه حي يرد عليه السلام)کہ ’’انسان کی قبر کے پاس سے اس کا دنیا میں کوئی بھی واقف کار جب گزرتا ہے اور اسے سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کی روح لوٹاتا ہے تاآنکہ وہ سلام کا جواب دے لے۔‘‘ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مگر ام المومنین نے تاویل کی ہے۔۔ اللہ ان سے راضی ہو جائے۔۔ ایسا معاملہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا ہے، ان سے منقول ہے کہ معراج کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کے ساتھ ہوا تھا جبکہ لوگ(اہل سنت)حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے برعکس ہیں۔ اسی قسم کے مسائل اور بھی بے شمار ہیں۔ یہ تو ہوا دوسرے امور میں، جہاں تک ’’احکام‘‘ کا تعلق ہے تو ان میں تو جس قدر اختلاف ہوا ہے وہ ضبط میں لایا ہی نہیں جا سکتا، چنانچہ ہر وہ مسئلہ جس میں دو مسلمان اختلاف کر لیں تو اس کی بناء پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر لیا کرتے تو آج مسلمانوں میں کوئی عصمت باقی نہ ہوتی نہ کوئی اخوت، حتیٰ کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی جو کہ مسلمانوں کے سردار ہیں بعض باتوں میں اختلاف کر لیتے تھے مگر اس میں خیر خواہی اور حق کی خواہش کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے غزوہ بنی قریظہ کے دن فرمایا تھا:(لا يصلين احد العصر الا في بني قريظة