کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 183
(2) دوسری قسم کے امور میں وہ مسائل ہیں جو مثلاً سلف میں سے کسی کا قول ہوں، یا بعض علماء یا بعض لوگوں کا موقف، اور وہ حق بھی ہوں، یا ایسے مسائل جن میں اجتہاد ہو سکتا ہے، یا کسی کا مذہب ہو۔۔ اگرچہ ایسے بیشتر مسائل اصول اہل سنت کے موافق ہیں مگر ان میں بعض مسائل ایسے بھی ہیں جن میں اگر انسان مخالفت کرے تو اس پر مبتدع ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا مثلاً بندوں پر اللہ کی سب سے پہلی نعمت کا مسئلہ، چنانچہ اس مسئلے میں اہل سنت کے مابین اختلاف ہے تاہم نزاع لفظی ہے کیونکہ اس کی بنیاد یہ ہے کہ وہ لذت یا راحت جس کے پیچھے دکھ ہو گیا اسے نعمت کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔(ج 3 ص 386) (3) چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات سے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے یا نہیں، ان کا کہنا ہے:(مَن زَعَم أنَّ محمَّدا صلى اللّٰه عليه وسلم رأى ربه فقد أعظم على اللّٰه الفِرية)کہ ’’جو یہ سمجھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کا دیدار کر رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ اور بہتان جڑتا ہے۔ جبکہ جمہورِ امت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول پر ہیں اس کے باوصف وہ ان لوگوں کو بدعتی قرار نہیں دیتے جو ام المومنین کے موقف کے قائل ہیں اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کا بھی انکار کرتی ہیں کہ مردے، کسی زندہ کی بات کو سن سکتے ہیں۔ جب ان(عائشہ رضی اللہ عنہا)کے سامنے یہ حدیث ذکر کی گئی:(ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قال: ما أنتم بأسمع لما أقول منهم)کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(بدر کے کافر مردوں کے بارے میں)کہ تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سنتے، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ کہا تھا(یعنی آپ کا مطلب تو یہ تھا)کہ وہ اس وقت پوری طرح جانتے ہیں کہ جو میں نے ان سے کہا