کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 174
سرتسلیم خم اور انقیاد کے ساتھ اقرار کا نام ہے۔ یہ اصل ایمان ہے جس شخص میں یہ نہیں وہ مومن نہیں ہے۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی تبعیض اور تجزئیہ ممکن نہیں(یعنی کسی میں اس کا کچھ حصہ ہو اور کچھ نہ ہو)اور یہ کہ کسی میں اگر ایمان کا ایک چھوٹا جزو بھی ہے تو وہ بھی اس قابل ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی بناء پر دوزخ میں ڈالنے کے بعد آخرکار اسے نکال لے نہ کہ جیسے اہل سنت کے عقیدے سے خروج کرنے والے کہتے ہیں کہ ایمان کی تبعیض اور تجزئیہ ممکن نہیں ہے(یعنی کسی میں اس کا کچھ حصہ ہو اور کچھ نہ ہو)بلکہ(بقول ان کے)یہ ایک ایسی ناقابل تقسیم چیز ہے جو یا تو پوری کی پوری ہو گی اور یا پھر بالکل سے نہیں ہو گی۔(ج 12 ص 472-475) ٭ اس کے باوصف، اہل سنت و الجماعت، خوارج کے برعکس اہل قبلہ کی مطلق معاصی(گناہوں)اور کبائر(کبیرہ گناہوں)کی بناء پر تکفیر نہیں کرتے، بلکہ اخوت ایمانی معاصی کے باوجود باقی رہتی ہے۔۔ ایسے فاسق سے جو ملت کے دائرے کے اندر ہے، اہل سنت لفظ ایمان کی بالکلیہ نفی نہیں کرتے اور نہ ہی، جیسے کہ معتزلہ کہتے ہیں، ایسے شخص کو مخلد فی النار سمجھتے ہیں بلکہ فاسق بھی لفظ ایمان کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایمان مطلق کے دائرے میں داخل نہ ہو۔۔ تاہم اہل سنت اس کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ وہ ناقص ایمان والا مومن ہے، یا یہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان رکھنے کی بناء پر مومن ہے اور اپنے کبیرہ(گناہ)کی بناء پر فاسق ہے، لہٰذا نہ تو وہ(ایمان کے)لفظ مطلق کا مستحق ہے اور نہ ہی وہ مطلق ایمان سے خارج ہے۔ (9) اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہی شخص مستوجب عذاب