کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 173
ہے مگر ان کے ترک سے گناہ لازم نہیں آتا۔۔ تاہم جو مستحبات پر عمل کرتا ہے تو زیادہ بہتر، کامل تر اور ثواب کا باعث ہوتا ہے۔۔ لیکن جس سے حج کا رکن ہی چھوٹ جائے یا حج کرے تو سہی مگر کسی ایسے کام کا ارتکاب کرے کہ اس کا پورا حج ہی فاسد ہو جائے تو اس سے نہ فرض کی ادائیگی ہوتی ہے اور نہ وہ شخص ہی اس سے عہدہ برآ ہوتا ہے۔۔ اسی طرح عام مشاہدے کی بات ہے درخت ہی کو لے لیں درخت تنے، پتوں اور شاخوں کے مجموعے کا نام ہے اگر پتے بھی نہ رہیں تو وہ بھی درخت ہی رہتا ہے شاخیں بھی چلی جائیں تو بھی درخت تو رہتا ہے مگر اس میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔ ایمان اور دین کی بالکل ایسی ہی صورتحال ہے۔ ایمان تین درجے کا ہوتا ہے ایک سابقین مقربین﴿وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ﴿١٠﴾أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ﴾کا ایمان ہے جس میں فعل و ترک(یعنی فرائض سر انجام دینے اور محرمات سے گریز)کے واجبات(فرائض)اور مستحبات کی تعمیل ہوتی ہے۔ دوسرے درجے کا ایمان مقتصدین اور اصحاب الیمین کا ایمان ہے جس میں فعل و ترک کے واجبات(فرائض)کی تعمیل ہوتی ہے تیسرے درجے میں ظالمین ایمان ہے جس میں بعض واجبات(فرائض)چھوٹ جاتے ہیں اور بعض مخطورات(جن کو ترک کرنے کا حکم ہے)کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ بنا بریں علماء اہل سنت نے خوارج کی اس بدعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کے تحت وہ مطلق گناہ کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ بیان کیا ہے کہ اہل سنت اہل قبلہ میں سے کسی کی مطلق گناہ کے ارتکاب کی بناء پر تکفیر نہیں کرتے۔ جہاں تک تو اصل ایمان کا تعلق ہے تو وہ جو کچھ رسول اور انبیاء علیہم السلام لے کر مبعوث ہوئے ہیں اس کی تصدیق،