کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 172
و حدیث اور جمہور فقہاء و صوفیہ، امام مالک، سفیان ثوری، امام اوزاعی، حماد بن زید، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ ایسے امام اور اہل کلام کے محققین سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایمان اور دین قول اور عمل(کا نام)ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ایسے سلف کے یہی الفاظ ہیں اگرچہ کسی جگہ ایمان سے عمل کا مغایر(یعنی صرف قول)مراد ہو سکتا ہے لیکن سب کے سب اعمال صالحہ دین اور ایمان کے معنی میں داخل ہیں۔ قول میں دل اور زبان کا قول شامل ہے اور عمل میں دل اور اعضائے جسمانی کے عمل شامل ہیں۔(ج 12 ص 471) (8) اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ایمان کی اصل بھی ہے اور فروع(شاخیں)بھی اور جب تک اصل زائل نہ ہو ایمان زائل نہیں ہوتا۔ بنا بریں اہل سنت، اہل قبلہ میں سے کسی کو مطلق معاصی کی بنا پر کافر قرار نہیں دیتے، تاآںکہ اصؒ ایمان ہی زائل ہو جائے۔ ٭ مفسرین مذہب اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ اس کے(ایمان کے)اصول بھی ہیں اور فروع بھی اور وہ ارکان، واجبات۔۔ جو ارکان نہیں ہوتے مگر واجب ہوتے ہیں۔۔ اور مستحبات پر مشتمل ہے، بالکل حج، نماز یا دیگر عبادات ہی کی طرح مثلاً لفظ حج میں ہر وہ چیز آ جاتی ہے جو اس میں شریعت نے بتائی ہے چاہے حج میں کرنے والے کام ہوں چھوڑنے والے۔۔ پھر اس کے ساتھ حج کچھ ارکان پر مشتمل ہے جن کو چھوڑ دیا جائے تو حج باطل ہو جاتا ہے مثلاً وقوف عرفہ، اسی طرح کچھ باتیں ممنوع ہیں جن کو کیا جائے تو حج فاسد ہو جاتا ہے مثلاً جماع وغیرہ، پھر حج کے کچھ واجبات ہیں یعنی کچھ کام کرنے اور کچھ چھوڑے واجب ہیں کہ اگر ان کو عمداً ترک کیا جائے تو گناہ لازم آتا ہے۔۔ ان کے علاوہ کچھ مستحبات ہیں یعنی کچھ کام کرنے اور کچھ چھوڑنے سے ثواب ہوتا ہے ان سے حج کی تکمیل و تحسین ہوتی