کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 170
ایسے تمام احوال جن سے ان بندوں کو گزرنا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہیں۔ ب: پھر اللہ عزوجل نے لوح محفوظ میں مخلوق کی تقدیریں لکھ دی ہیں۔۔ اور یہ تقدیر جو کہ ان کے عمل کی بناء پر ہے بااجمال و تفصیل ہر دو طرح سے وجود رکھتی ہے، چنانچہ اس نے جو چاہا لوح محفوظ میں لکھ دیا اور جب ماں کے پیٹ میں بچے کو پیدا کرتا ہے تو اس کے جسم میں روح پھونکنے سے پہلے اس کی طرف ایک فرشتہ روانہ کرتا ہے جسے چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے: اس کا رزق، اس کی اجل(عمر)، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہو گا یا نیک بخت وغیرہ وغیرہ۔ جو یہ امور ہیں ان کا انکار پرانے زمانے میں غالی قسم کے قدریہ کیا کرتے تھے اور اس دور میں بھی کچھ لوگ ان کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرا درجہ: اللہ کی اس مشیت اور ہمہ گیر قدرت پر ایمان رکھا جائے جو ہر چیز پر جاری و ساری ہوتی ہے۔ یعنی یہ ایمان کہ جو اللہ چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا نہیں ہوتا، اور یہ کہ آسمانوں کی بلندیوں اور زمین کی پہنائیوں تک میں اللہ عزوجل کی مشیت کے بغیر نہ کوئی حرکت ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز ساکن ہوتی ہے، اس کی بادشاہی میں جو وہ چاہتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز چاہے وہ وجود رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو قادر اور قدیر ہے چنانچہ زمین میں نہ آسمان میں کہیں کوئی مخلوق ایسی نہیں جو اللہ کی پیدا کی ہوئی نہ ہو، نہ اس کے سوا کوئی خالق ہے اور نہ اس کے سوا کوئی رب۔ ب: اس کے باوصف اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے اور اپنی معصیت و نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور وہ۔۔ کہ ہر عیب