کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 17
النظر اس تعبیر کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک خاص پہلو ہی کا تصور اجاگر ہو سکے۔ جبکہ اس کے کئی دوسرے جوانب بھی ہیں جن کو طاق نسیان میں پڑا رہنے سے زمانے کے گردوغبار نے بہت حد تک چھپا دیا ہے۔ جبکہ میزان حق اور معیار فلاح و نجات میں دنیوی اور اخروی دونوں لحاظ سے ان جوانب کی اہمیت کچھ کم نہ تھی۔ اہل سنت و الجماعت کے منہج میں عقائد کو جو اہمیت ہے اس میں کچھ بھی شک نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو مجال انکار، بلکہ بقول امام رجب رحمہ اللہ یہ بے انتہاء حساس مسئلہ ہے اور اس کی مخالفت تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ ہم باقی جوانب کی حق تلفی کرتے ہوئے اہل سنت کے دوسرے اصول اور منہج کے دیگر امور سے بے نیاز ہو جائیں جو کہ عقائد اہل سنت کے ساتھ مل کر دین کی اس پرشکوہ عمارت کی بنیادوں اور ستونوں کی تکمیل کرتے ہیں جو اس ’’جماعت‘‘ کے اس عظیم الشان ورثے کو محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ کسی بھی چیز کے ’’اصول‘‘ جیسا کہ لغت کی کتابوں میں ملتا ہے، اس کی وہ بنیادیں ہوتی ہیں جن پر اس کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ تو پھر کیا اس ’’طائفہ منصورہ‘‘۔ اہل سنت و الجماعت کا سب کا سب ورثہ صرف اور صرف عقائد اہل سنت ہی پر مشتمل ہے؟ اور کیا وہ پوری تہذیب جو دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب بن رہی ہے اور اس ملت کی پوری تاریخ پر محیط ہے، عقائد کے سوا کچھ نہ تھی؟ آخر وہ علمی اصول و ضوابط اور عقل کی حدود جو ’’اہل سنت‘‘ نے وضع کی ہیں کہاں جائیں گی؟ نظر و استدلال اور بحث و استقراء کے بارے میں(اہل سنت کے)منہج کو کس خانے میں فٹ کریں گے؟ وہ اصول جو ہر دور کی واقعاتی حالت کو سمجھ کر(دین کی روشنی میں)ایک مثبت اور صحیح منہج اپنا کر تحریک برپا کرنے میں راہنمائی کرتے ہیں اور مصلحت