کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 164
ہے۔(الشوریٰ: 11)چنانچہ اللہ نے اپنا جو وصف بیان کیا۔ نہ تو اس کی نفی کرتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی تحریف کرتے ہیں کہ لفظ کو اپنے اصل معانی سے ہٹا دیا جائے نہ ہی اللہ عزوجل کے اسماء(ناموں)اور آیات میں الحاد(انکار)کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی صفات کی کیفیت کی مانند یا مثل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بلند ہے اور پاک ہے نہ تو اس کا کوئی ہم نام ہے اور نہ کوئی ہم سر، نہ کوئی اس کے برابر ہے اور نہ اس کو مخلوق پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو اس سے بہت بلند و بالا اور عظیم تر ہے، وہ اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ کوئی اللہ سے بڑھ کر بات کا سچا نہیں ہے وہ اپنی تمام مخلوق سے افضل اور بہتر بات کرتا ہے۔ پھر ان لوگوں کے برعکس جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم کے بات کرتے ہیں، اس کے تمام رسول سچے ہیں اور ان کو سچا ماننا فرض اور جزو ایمان ہے، اسی لیے اللہ عزوجل نے فرمایا:﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ﴿١٨٠﴾وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ﴿١٨١﴾وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴿١٨٢﴾﴾’’تمہارا رب(ان اوصاف)سے جو یہ بیان کرتے ہیں بلند ہے جو کہ رب العزت ہے، اور سلامتی ہے رسولوں پر اور سب کی سب تعریف اور حمدوثناء اسی اللہ کی ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘(الصافات: 182)چنانچہ یہاں اللہ عزوجل نے اپنی ذات کو ان اوصاف سے کہیں بلند و پاک اور عظیم قرار دیا ہے جو رسولوں کے مخالفین اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں، اور رسولوں کے لئے سلامتی رکھی ہے کیونکہ اللہ کے بارے میں ان کی بیان کردہ باتیں نقص و عیب سے سلامت رہی ہیں۔ اللہ عزوجل۔۔ کہ ہر عیب سے پاک ہے۔۔ نے جہاں اپنی صفات اور نام بیان کئے ہیں تو وہاں نفی اور اثبات