کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 159
حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ یا کسی شیخ سے انتساب کی بناء پر قادری یا عدوی وغیرہ، یا مثلاً قبائل سے نسبت کی بناء پر قیسی، یمانی وغیرہ، یا علاقوں وغیرہ کی نسبت کی بناء پر شامی، عراقی یا مصری وغیرہ تو ایسے ناموں کی بنا پر بھی لوگوں کو پرکھنا جائز نہیں ہے نہ ہی ان وجوہ کی بناء پر دوستی، محبت اور ولاء یا بغض و عداوت رکھنا ہی کسی طور جائز ہے بلکہ اللہ کی مخلوق میں سب سے افضل اور باعزت(ایک ہی معیار کی بناء پر ہو سکتا ہے)کہ سب سے بڑھ کر متقی ہو، چاہے کسی طائفہ سے ہو۔(ج 3 ص 416)
٭ تو پھر ان باتوں کے باوجود امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کیونکر جائز ہو سکتا ہے کہ تفرقہ و اختلاف کا شکار ہوتی رہے حتیٰ کہ آدمی ایک گروہ سے تعلق اور وفاداری و ولاء رکھے اور دوسرے سے عداوت اور دشمنی، سب کچھ ظن اور ہوائے نفس کی بناء پر کہ اللہ نے(کسی ایک پر بھی)دلیل و برہان نہیں اتار رکھی ’’ما انزل اللّٰه بها من سلطان‘‘ جبکہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے لوگوں سے بری قرار دیا ہے، چنانچہ یہ اہل بدعات کا فعل ہے جن کی ایک مثال وہ خوارج ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی ’’جماعت‘‘ سے مفارقت اختیار کی اور اپنے سب مخالفوں کے قتل و خونریزی کو جائز قرار دیا، لیکن اہل سنت و الجماعت صرف اللہ کی رسی، حبل اللہ سے ہی اعتصام رکھتے ہیں۔ اس بدعت کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کو افضل سمجھے جو اس کی جاہلانہ رائے میں اس کے موافق ہو، دوسرا(جو اس کے موافق نہیں)اللہ سے زیادہ ڈرنے والا متقی اور پرہیزگار ہو!
اس بناء پر بدعتی ناموں کی بنیاد پر امت میں تفریق اور امتیاز کیونکر جائز ہو سکتا ہے جن کی نہ کتاب اللہ میں کوئی حیثیت ہے اور نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں؟