کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 156
اہل سنت و الجماعت کی ولاء(محبت، تعلق اور وفاداری)سب سے پہلے صرف اور صرف حق سے ہوتی ہے پھر اسی کو واحد بنیاد بناتے ہوئے وہ ہر شخص، گروہ یا جماعت سے اپنا رویہ، سلوک اور موقف طے کرتے ہیں نہ کہ کسی مبنی بر جاہلیت تعصب کی بناء پر مثلاً قبیلہ(ذات برادری)وطن، علاقہ، مذہب و مسلک، طریقت، جماعت، گروہ یا قیادت وغیرہ۔ ٭ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مدح و تعریف یا مذمت، محبت کا بغض، موالات(تعلق اور وفاداری)یا دشمنی، درود یا لعنت میں سے کوئی بھی کام ایسے نام یا تشخص کی بناء پر کرے جسے اللہ عزوجل نے مورد الزام ٹھہرایا مثلاً قبیلہ(ذات برادری)وطن یا علاقہ، مذہب(مذاہب و مسالک)اماموں اور مشائخ سے منسوب طریقت یا کوئی بھی ایسی بنیاد جس سے کوئی پہچان یا تشخص قائم ہوتا ہو۔۔ چنانچہ جو شخص بھی ایمان رکھتا ہے اس کے ساتھ ولاء(دوستی، تعلق اور وفاداری)فرض ہو جاتی ہے چاہے وہ کسی بھی نسبت سے منسوب ہو یا کسی بھی صنف سے تعلق رکھتا ہو اور جو بھی کافر ہے اس سے دشمنی رکھنا فرض ہے چاہے وہ کسی بھی نسبت سے منسوب ہو یا کسی بھی صنف سے تعلق رکھتا ہو۔۔ مزید براں جو شخص ایمان بھی رکھتا ہو اور اس میں فسق و فجور بھی ہو تو ایسے شخص کے ساتھ اس کے ایمان کے بقدر ولاء و موالات اور اس کے فسق و فجور کے بقدر بغض رکھنا چاہیے کہ وہ صرف گناہوں اور معصیت کی وجہ سے ایمان سے خارج بہرحال نہیں ہو جاتا، جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ ایمان، دین، محبت اور بغض و نفرت اور ولاء و موالات اور براءت و معادات کے معاملے میں انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صالحین کو فاسقوں اور گناہ گاروں کے برابر کر دیا جائے۔(ج 28 ص 227-229)