کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 144
اور آراء کی باہم سر پھٹول تھی، آخر آپ کے ذریعے انہی لوگوں کے دلوں میں الفت و مودت پیدا کر کے ان کی شیرازہ بندی فرمائی اور شیطان کے مکروفریب سے محفوظ کر دیا۔
پھر اللہ عزوجل نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ بنیاد یعنی ’’جماعت‘‘ اس کے دین کا ستون ہے۔۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بحث مباحثے کو سخت ناپسند فرمایا جو اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔۔ چنانچہ فرقہ ناجیہ کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ لوگ آپ کی سنت سے متمسک رہنے والے ہوں گے اور یہ بھی کہ وہ ’’جماعت‘‘ ہوں گے۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام رحمہم اللہ اور بعد کے علماء جب کبھی کسی مسئلے میں اختلاف کر لیتے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کر لیتے تھے:﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾’’پس اگر کسی چیز میں تمہارے درمیان اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دیا کرو یہی بہتر اور احسن تاویل ہے۔‘‘(النساء: 59)ان لوگوں کا مناظرہ بھی باہمی صلاح مشورے اور نصح و نصیحت کی نوعیت کا ہوتا تھا، بسا اوقات کسی علمی(اعتقادی)یا عملی مسئلہ میں اختلاف ہوتا مگر الفت اور دینی اخوت باقی رہتی اور کوئی ناچاقی نہ ہوتی۔۔ احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ ضبط میں لانا ناممکن ہے، اگر ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کر لی جایا کرتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا۔(ج 24 ص 170)
٭ یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کی خطا معاف کر دی ہے اور اس ’’خطا‘‘ میں اخبار ایسے قولی علمی(اعتقادی)اور عملی مسائل سبھی شامل ہیں۔ سلف ایسے