کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 13
فرقوں میں بٹے گی اور ایک کے علاوہ سب دوزخی ہوں گے، ایک روایت میں ہے:
’’تہتر ملتوں میں بٹے گی، جبکہ ایک اور روایت میں ہے۔ صحابہ نے عرض کی: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا)کون ہو گا؟‘‘ فرمایا: ’’جو اس راستے پر ہو گا جو آج میرا اور میرے صحابہ کا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اس(فرقہ)کے بارے میں آتا ہے۔ فرمایا: ’’وہ جماعت ہو گی۔جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہو گا۔‘‘
اللہ کے رسول نے سچ ہی فرمایا تھا چنانچہ وہی ہوا، اور امت، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فرقوں میں بٹنے لگی۔﴿بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ﴾کے مصداق ’’آسمانی ہدایت کے باوصف سرکشی کرتے ہوئے‘‘ خواہشات و آراء کی کوشش سے لوگ حق سے دور ہٹتے چلے گئے، اختلاف بڑھتا گیا اور یوں مختلف مذہب اور مسلک نظر آنے لگے۔ بدعات اور نظریات کی بھرمار ہونے لگی۔ لوگ کتاب و سنت سے بیگانہ ہو کر صراط مستقیم سے ہٹنے اور مختلف بھول بھلیوں میں بھٹکنا شروع کر دیا۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دوسروں کو سبقت دینے لگے اور غلط راستوں سے ایسے چمٹ کر بیٹھ گئے جیسے یہی حق ہوں۔
لیکن اسی دوران جہاں یہ سب کچھ ہوتا رہا، وہاں رسول امین کی پیشین گوئی کے مطابق فرقہ ناجیہ کا وہ علم بھی سربلند ہی رہا اور ایک پل بھی سرنگوں نہ ہونے پایا جس کے نیچے وہ صراط مستقیم کے راہی نجات کی فکر لے کے جمع ہوتے رہے جن کو اللہ نے گمراہیوں کی اندھیر نگری سے بچا رکھنا تھا۔ یہ لوگ اس ’’جماعت‘‘ سے وابستہ رہے جو رسول برحق اور صحابہ کرام کے راستے پر گامزن تھی۔ اسی سے تابعین، تبع تابعین اور راہ حق پر چلنے والے لوگوں کا سلسلہ چلتا