کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 120
کرتے ہیں کہ لوگ(اسناد کے بارے میں)باز پرس نہیں کیا کرتے تھے جب فتنے وقوع پذیر ہوئے تو پوچھا جانا شروع ہوا کہ اس روایت کے راوی کون کون ہیں؟ اور یہ دیکھا جاتا کہ اگر راوی اہل سنت ہوتے تو روایت قبول کر لی جاتی اور اگر اہل بدعت ہوتے تو روایت قبول نہ کی جاتی تھی۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: حدیث دین ہے اس لئے دیکھ لیا کرو کہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو۔(مقدمہ صحیح مسلم ص 15، کفایۃ ص 162، 163 طبع ہندیہ) حدیث کی روایت کے پہلو کا اہتمام ظہور کے فتن سے شروع ہوتا ہے جب علماء سنت نے یہ امتیاز شروع کیا کہ کس کی روایت قبول ہوتی ہے اور کس کی قبول نہیں ہوتی، لہٰذا جو اہل اتباع اور اہل سنت شمار ہوتا تھا، اس کی روایت قابل قبول قرار پاتی اور جس کا شمار اہل بدعت میں ہوتا تھا اس کی روایت قابل رد ہوتی تھی سوائے یہ کہ خاص دقیق شروط کو پورا کرتی ہو۔(2) اہل بدعت میں سے عام دیکھنے میں آیا ہے کہ روافض کے ہاں جھوٹ عام تھا۔ اس لئے ان کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں(کہ میں نے اہل اھواء و بدعات میں روافض سے بڑھ کر جھوٹا دروغ گو کوئی نہیں دیکھا) پھر جب مختار کا فتنہ وقوع پذیر ہوا جو کہ شیعیت کا میلان رکھتا تھا تو اس کے زمانے میں جھوٹ بے انتہاء عام ہو گیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے احادیث گھڑی جانے لگیں چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے جابر بن نوح کے حوالہ سے اعشی کے حوالہ سے ابراہیم(جو غالباً حربی ہیں)سے روایت کی ہے(کہ حدیث کی سند کے بارے میں مختار ہی کے زمانے سے دریافت کیا جانے لگا)اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب