کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 118
و نشر، اس کا ساتھ دینے اور اس کی نصوص و آثار میں تبحر علمی حاصل کرنے کی بدولت اور اس کے اسرار و رموز کے بیان کی توضیح کی بناء پر یکے بعد از ائمہ سنت اور سربرآوردہ شخصیت قرار پائے۔ ورنہ ایسی کوئی بات نہیں کہ انہوں نے دین میں کوئی نئی بات یا رائے ایجاد کی تھی، جیسا کہ بعض مشائخ مغرب نے کہا ہے کہ مذہب امام مالک اور امام شافعی کا ہے مگر شہرت امام احمد رحمہ اللہ کی نسبت سے ہوئی یعنی ’’اصول‘‘ میں ائمہ کا ایک ہی مذہب ہے جس کی ترجمانی امام احمد کی قسمت میں آئی۔(منہاج السنۃ 2/482-486) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اہل سنت و الجماعت اسی مذہب کا تسلسل ہے جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، چنانچہ جب کبھی بھی بدعات کا دور دورہ ہو یا مذہب سنت گوشہ غربت یا اجنبیت میں پڑ جائے اور ایسے دور میں کوئی امام عقیدہ صحیحہ کے اعتقاد اور بدعت کی مخالفت کی دعوت لے کے کھڑا ہو تو وہ کوئی نئی چیز لے کر نہیں آتا بلکہ مذہب اہل سنت کے مٹے گوشوں کی تجدید اور فوت شدہ امور کا احیاء کرتا ہے، وگرنہ عقیدہ تو ایک ہی ہے اور منہج عقیدہ بھی وہی ہوتا ہے۔ پس کسی زمانے میں یا کسی علاقے میں مذہب اہل سنت کی نسبت کسی ایک عالم یا مجدد کی طرف ہو جائے تو وہ صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اس نے اس کی طرف دعوت دی ہوتی ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ اس نے اس کی ایجاد یا اختراع کی ہو۔ اس بناء پر اہل سنت کا وجود تو نیا نہیں ہے تاہم جہاں تک اہل سنت و الجماعت یا اہل حدیث کے نام سے پکارے جانے کا تعلق ہے تو اس کی ابتداء ضرور ہوئی ہے کیونکہ جب تفرقہ و افتراق شروع ہوا، فرقے عام ہوئے اور بدعات و انحرافات کے انبار لگنے لگے تو لازمی طور