کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 114
شیخ الاسلام اپنی مذکورہ بالا گفتگو پر زور دیتے ہوئے اپنے عہد کے بارے میں بھی وہی بات کہتے ہیں فرماتے ہیں: ’’شام مصر وغیرہ کا طائفہ جو ہے تو یہی لوگ اس وقت دین اسلام کی طرف سے لڑ رہے ہیں اور سب لوگوں سے بڑھ کر اس طائفہ منصورہ میں شامل ہونے کے حقدار ہیں جن کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔۔ جبکہ طائفہ منصورہ کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے:(انهم باكناف البيت المقدس)کہ: ’’وہ لوگ بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔‘‘ اور آج یہی طائفہ ہے جو بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام 28/531-532-552) امر شرعی اور تکوینی میں تمیز لازم ہے: یہاں ہم ایک ضروری امر کی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں، بسا اوقات بعض مسلمانوں کے ذہن میں یہ خلط مبحث ہو جاتا ہے۔ چنانچہ امر تکوینی اور امر شرعی کے درمیان تمیز اور فرق کرنا ضروری ہے یعنی ارادہ تکوینیہ اور ارادہ شرعیہ میں تمیز، بالالفاظ دیگر ان ہر دو باتوں میں امتیاز کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ وہ ہم سے کیا کرانا چاہتا ہے۔ مسلمان سے اول و آخر یہ بات مطلوب ہے کہ وہ شرعی امور کی اتباع کرے اور جو اس سے طلب کیا گیا ہے اس کی پابندی کرے اور اپنی وسعت و طاقت کے بقدر اسی پر عمل کرے چاہے وہ کسی زمانے یا کسی علاقے یا دینی کام کے کسی بھی میدان میں برسر پیکار ہو، صرف اور صرف اسی بات کا اس سے اللہ تعالیٰ حساب لے گا۔ مگر اس کے علاوہ امور تکوینیہ جو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت مطلقہ اور حکمت بالغہ کے تحت