کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 113
قسم کے دوسرے اکابر شام میں جانے والے بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل تھے، لیکن کسی طائفے کا مجموعی طور پر تقابل اور راجح ہونا اس امر میں مانع نہیں ہے کہ دوسرا طائفہ میں کوئی ایک یا کچھ امور راجح نہ ہوں۔ اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام کا یہ امتیاز بیان فرمایا کہ وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ، آخر زمانے تک اللہ کے دین پر قائم رہیں گے اور یہ کہ طائفہ منصورہ آکر زمانے تک ان میں ہو گا چنانچہ یہ ان کے بارے میں کثرت اور قوت کے ساتھ ساتھ ایک مستقل و دائمی امر کی پیشین گوئی ہے اور یہ سرزمین اسلام میں شام کے علاوہ کسی کا وصف نہیں چنانچہ حجاز میں(جو کہ ایمان کا منبع ہے)آخر زمانے میں علم و ایمان اور نصرت و جہاد میں کمی ہوئی ہے اور یہی حال یمن، عراق اور مشرق کا ہے مگر شام میں علم اور ایمان بدستور موجود رہا بلکہ وہ لوگ بھی جو حق پر رہ کر لڑتے رہے ہیں اور ان کو ہمیشہ نصرت و تائید حاصل رہی ہے چنانچہ واللہ اعلم اس کی یہی توجیہ ہے۔ ان باتوں سے طائفہ، شامیہ کے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے راجح ہونے کا ثبوت ملتا ہے، جبکہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی اپنے سے مفارقت کرنے والوں کی نسبت اولی اور قریب تر از حق تھے اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ ہی نے قتل کیا ہے جیسا کہ نصوص میں آیا ہے۔ لہٰذا ہمارا فرض یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے ہاں سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھیں اور حق کی ہر بات کا اقرار کریں ہماری اپنی کوئی ہویٰ یا خواہش نہ ہو اور ’’علم‘‘ کے بغیر بات نہ کریں بلکہ علم اور عدل کے راستوں کی پیروی کریں کہ یہی کتاب و سنت کی اتباع ہے۔ اور کچھ لوگ کہ حق کے کسی حصے کو مان لیتے ہیں اور کسی حصے کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہیں سے تفرقہ و اختلاف جنم لیتا ہے۔(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام 4/445-450)