کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 112
پیشین گوئی فرمائی ہے اور اس میں شک نہیں کہ ان کو مجموعی طور پر اور عمومی حالات میں ترجیح حاصل رہی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنی خلافت کے پورے عہد میں اہل شام کو اہل عراق پر ترجیح دیا کرتے تھے حتیٰ کہ وہ کئی مرتبہ شام کے دورے پر گئے مگر عراق کے دورے پر نہ گئے، مشورہ کیا تو بھی یہی ٹھہرا کہ وہ وہاں جانے کو رہنے دیں۔ اسی طرح وفات کے وقت بھی جب ان کو خنجر لگا تو سب سے پہلے ان کے پاس ملاقات اور تیمارداری کے لئے اہل مدینہ کو لایا گیا اس لئے کہ وہ امت میں سب سے بہتر تھے، پھر اہل شام کو لایا گیا پھر سب سے آخر میں اہل عراق کو لایا گیا۔ صحیح روایت سے یہی کچھ ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی عراق کی نسبت شام کی فتح کے لئے زیادہ فکر مند تھے حتیٰ کہ ان کا کہنا تھا کہ شام کی ایک چھوٹی بستی مجھے عراق کا ایک پورا شہر فتح کرنے سے زیادہ عزیز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسی بے شمار نصوص صحیحہ ثابت ہیں جن میں مشرق کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ فتنہ اور کفر کی جڑ مشرق میں ہے تاہم ان کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مشرق کی اہل مغرب پر فضیلت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے تھی مگر یہ عارضی تھی اسی لئے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے رخصت ہوئے تو ان میں بے شمار فتنوں، نفاق، ارتداد اور بدعات نے سر اٹھایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مغرب ہی راجح تھے۔ اسی طرح اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں کہ اہل مشرق میں ایسے ایسے علماء اور صالحین حضرات ہو گزرے ہیں جو اہل شام کے بے شمار لوگوں سے افضل تھے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور اس