کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 111
سلسلے میں کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا تعلق ہے:(لا يزال اهل الغرب ظاهرين)کہ: ’’اہل مغرب ہمیشہ غالب رہیں گے۔‘‘ یہ اور اسی طرح کی دوسری روایات جو اہل شام کے غلبہ اور فتح کے بارے میں آئی ہیں۔۔ یہ تو واقعاتی اور تاریخی لحاظ سے ایسا ہی پیش آیا ہے چنانچہ وہی لوگ غالب رہے، تاہم جہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا تعلق ہے:(لا تزال طائفة من امتي قائمة بامر اللّٰه)کہ: ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین کو قائم کئے رہے گا۔‘‘ اور یہ کہ وہ غالب ہو گا تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ ان میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہو گا جس میں بغاوت پائی جاتی ہو(یعنی باغی ہو)اور نہ ہی یہ قطعی تقاضا ہے کہ کوئی دوسرے لوگ ان کی بہ نسبت حق سے قریب تر نہ ہوں، بلکہ ان میں تو ایسے بھی پائے جا سکتے ہیں اور ویسے بھی۔ اور جہاں تک آپ کے اس قول کا تعلق ہے:(تقتلهم اولي الطائفين بالحق)کہ: ’’ان لوگوں کو دو گروہوں میں سے وہ گروہ قتل کرے گا جو حق سے قریب تر ہو گا۔‘‘ یہ تو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی حق سے قریب تر تھے کیونکہ وہ دوسرے ’’طائفہ‘‘ گروہ سے تھے، اب اگر ایک شخص یا ایک ’’طائفہ‘‘ بعض حالت میں راجح نہیں ہے بلکہ کوئی دوسرا اس کی نسبت قریب تر از حق ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کیے ہوئے نہ ہو اور نہ ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ غالب نہ ہو۔ بعض اوقات ایک فعل اطاعت میں شمار ہوتا ہے مگر کوئی دوسرا فعل اس سے زیادہ بڑھ کر اطاعت کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ بعض مواقع پر باغی ہیں ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ ان کی بغاوت قابل مغفرت غلطی یا گناہ سے زیادہ نہیں ہے تو یہ بات بھی مذکورہ بالا نصوص سے ثابت شدہ امور اور مجموعی طور پر