کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 110
امام ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کی حدود جہاں فرات پر ختم ہوتی ہے وہ جگہ مدینہ کو بالکل سیدھی پڑتی ہے۔ اس کے بعد حران اور رقہ وغیرہ مکہ کی سیدھ میں پڑتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو قبلہ سب سے سیدھا پڑتا ہے ان کا رخ رکن شامی کی سمت ہوتا ہے تو پشت قطب شمالی کی جانب ایسے ہوتی ہے کہ نہ تو اہل عراق کی طرح دائیں طرف مڑنا ہوتا ہے اور نہ اہل شام کی طرح بائیں طرف۔ چنانچہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ یہ نصوص اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حق پر قائم رہنے والا وہ گروہ(طائفہ)جس کو کسی کی مخالفت اور کسی نیچا دکھانے والے کی کوشش کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی شام میں ہو گا اس لئے اس کا تعارض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:(تقتل عمار فئة باغية)کہ: ’’عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی متعارض ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی(تقتلهم اولي الطائفين بالحق)کہ ان دو گروہوں میں سے وہ قتل کرے گا جو حق سے قریب تر ہو گا۔ یہ اقوال ان لوگوں کے ہاں دلیل ہیں جو سب ہی(مذکورہ)گروہوں کو ایک سا اور سبھی کو برحق سمجھتے ہیں یا کم از کم کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے سے احتراز کرتے ہیں جو کہ اقرب ہے، اہل شام وغیرہ کے حق میں جو روایات آئی ہیں ان میں سے بعض لوگ دوسرے گروہ کے خلاف بھی استدلال کرتے ہیں لیکن یہ قول درست نہیں ہے بلکہ ناصبی لوگوں کا قول ہے اور شیعہ و روافض کے اقوال کے برعکس ہے، جبکہ یہ سب اہل اھواء ہیں ہماری گفتگو صرف اہل علم اور اہل عدل سے ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ نصوص جو بظاہر متعارض ہیں ان میں جمع و تطبیق ضروری ہے۔ اس