کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 109
ہوئی تو یہی اہل حق ہیں۔ دوسرا: یہ کہ نصوص بھی اہل شام کی نشاندہی کرتی ہیں، مثلاً حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا قول اسی طرح صحیح مسلم کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اہل غرب ہمیشہ غالب رہیں گے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل غرب سے مراد اہل شام ہیں اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں مقیم تھے لہٰذا ان کے مغرب کی سمت غرب اور مشرق کی سمت شرق ٹھہرتی ہے، اہل نجد اور اس سے مشرق کی سمت کے لوگ اہل مشرق کہلاتے تھے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں آیا بھی ہے:(قدم رجلان من اهل المشرق فخطبا فقال النبي صلي الله عليه وسلم: ان من البيان لسحرا)کہ ’’اہل مشرق کے دو آدمی مدینہ آئے اور خطاب کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعض کلام تو جادو ہوتا ہے۔‘‘ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بہت سی احادیث مشہور ہیں جن میں فرمایا گیا ہے کہ شر کا منبع مشرق ہے مثلاً آپ کا فرمان ہے:(الفتنة من هاهنا، الفتنة من هاهنا، ويشير الي المشرق)کہ: ’’فتنہ ادھر سے آئے گا، فتنہ ادھر سے ہو گا، اور آپ مشرق کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔‘‘ اسی طرح آپ کا فرمان(راس الكفر نحو المشرق)کہ: ’’کفر کی جڑ مشرق کی طرف ہے۔‘‘ اسی طرح کی دیگر بہت ہی روایات ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق پر قائم رہنے والا طائفہ منصورہ آپ کی امت میں مغرب میں ہو گا اور وہ شام یا اس سے مغرب کا علاقہ ہے جبکہ فتنہ اور کفر کی جڑ مشرق میں ہو گی۔ اہل مدینہ اہل شام کو اہل غرب کہا کرتے تھے، امام اوزاعی رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ امام اہل مغرب ہیں اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ مشرق میں اہل مشرق کے