کتاب: اہل سنت فکر و تحریک - صفحہ 105
’’سلف‘‘ کے بارے میں غزالی کہتے ہیں: ’’مراد ہے صحابہ و تابعین کا مذہب‘‘(الجام العوام عن علم الكلام ص 62) باجوری کے بقول: ’’سلف‘‘ سے مراد ہے گزرے ہوئے لوگ مثلاً انبیاء، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین خصوصاً ائمہ اربعہ مجتہدین‘‘(شرح الجوھرہ، ص 113) شیخ محمود خفاجی کہتے ہیں: اس سلسلے میں زمانے کے لحاظ سے یہ تعین ہی کافی نہیں ہے بلکہ جب ہم سلف کا مطلب گزرے ہوئے لوگ کرتے ہیں تو ساتھ ہی موافقت از کتاب و سنت اور روح سنت بھی ضروری ہے لہٰذا جس کی رائے کتاب و سنت کی مخالفت میں ہے وہ سلف نہیں ہو سکتا چاہے صحابہ، تابعین یا تبع تابعین کے ساتھ زندگی گزار چکا ہو‘‘(العقيدة الاسلاميه بين السلفية والمعتزلةص 21) شیخ ابن حجر القطری اپنی کتاب ’’العقائد السلفية بادلتها العقلية والنقلية‘‘ میں لکھتے ہیں: اس بناء پر مذہب سلف سے مراد ہو گا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے تابعین باحسان الی یوم الدین، تبع تابعین رحمہم اللہ اور وہ ائمہ دین جن کی اسلام میں امامت اور بلند حیثیت تسلیم کی جاتی ہو اور لوگوں نے ان کی کتابوں کو نسل در نسل لیا ہو جیسے ائمہ اربعہ، سفیان ثوری، لیث ابن سعد، ابن المبارک، نخعی، بخاری، مسلم اور تمام اصحاب سنن رحمہم اللہ ماسوا جن لوگوں پر بدعت کا الزام ہو یا ناپسند القاب سے مشہور ہوئے ہوں مثلاً خوارج، رافضی، مرجیہ، جہمیہ، معتزلہ، ان لوگوں کے ماسوا مذکورہ لوگ جس راستے یا مذہب پر رہے ہوں۔ ان معروضات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’سلف‘‘ ایک اصطلاح ہے جس کا اطلاق پہلے تین مبارک زمانوں(قرون اولیٰ ثلاثہ)جو ائمہ گزرے ہیں ان پر ہوتا ہے، یعنی صحابہ