کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 99
کی عملی زندگی ہے۔یہ بات کس حد تک درست ہے؟ جواب:یہ انکارِ حدیث کے گمراہ کن تصورات میں سے ایک تصور ہے جو مولانا اصلاحی مرحوم کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے۔بعد ازاں جناب غامدی صاحب نے اپنے استاد اصلاحی صاحب کی عبارتوں پراستوار’ سُنّت‘ کا ایک بالکل جدید و مذموم تصور متعارف کروایا۔ہمارے ہاں بعض مذہبی حلقوں میں بھی یہ تصور اصلاحی صاحب سے استفادے کے نتیجے میں نفوذ پذیر ہواہے۔غامدی صاحب کے اس تصور کے مطابق جب ’سُنّت‘ کے لفظ کو بطور مصدر شریعت استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد صرف رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی ہوتی ہے اور آپؐ کے اقوال و تقریرات اور اخبار احاد کو‘ حالانکہ ان کا تعلق عموماً عملی زندگی سے نہیں ہوتا‘ غامدی صاحب مستقل بالذات مصدر شریعت یا ماخذ قانون نہیں سمجھتے۔ دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس مضمون میں ہمارا موضوعِ بحث سُنّت کی اتباع ہے اور قرآن و حدیث میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت یا آپؐ‘کی بذاتہ اتباع کا حکم دیا جاتا ہے تو کون صاحب عقل یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ آیت قرآنی﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾میں ’فَاتَّبِعُوْنِیْ‘سے مرادصرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں آپ کی اتباع ہے نہ کہ آپ ؐ کے اقوال و تقریرات میں؟واقعہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی آپ ؐ‘ کی سُنّت کاایک جزو ہے نہ کہ کل سُنّت ہے۔کل سُنّت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ‘ افعال اور تقریرات ہیں۔ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اتباع سے مراد صرف عمل کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ قول کی پیروی بھی اس میں داخل ہے۔جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ﴿فَاتَّـبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ﴾(ھود:۹۷)میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے فرعون کے امر و حکم یعنی قول کی پیروی کو اتباع قرار دیا ہے۔ سوال:آپ نے اہل سُنّت کے حوالے سے یہ موقف بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول ‘ فعل یا تقریر سُنّت نہیں ہے بلکہ آپؐ کے بعض اقوال ‘ افعال یا تقریرات سُنّت ہیں۔بظاہر یہ موقف بھی تو انکارِ سُنّت یا انکارِحدیث ہی کی ایک قسم نہیں بن جاتا؟ جواب:آپ ہماری بات کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔اہل سُنّت کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر قول‘ فعل یا تقریر سُنّت اور قابل اتباع ہے بشرطیکہ اس کا تعلق شریعت سے ہو۔اس کی مزید وضاحت اس طرح سے ہے کہ آپ ؐ اصلاً تو اللہ کے رسول و نبی تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپؐ کی ایک بشری زندگی بھی تھی جس کے تقاضوں کے تحت آپ بعض اوقات کوئی دنیاوی بات بھی فرما لیتے تھے یا کو ئی ایسا کام بھی کرلیتے تھے جس کا تعلق ان جائز امور سے ہوتا تھاجو براہِ راست دین کا موضوع نہیں ہیں۔مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلوت میں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے کیا باتیں فرمایا کرتے تھے ‘ کسی بھی صحابیؓ نے نہ تو ان کو نقل کیا ہے اور نہ ہی ان کے جاننے کی کوشش کی ہے۔آپ ذرا غور کریں کہ اگر کوئی