کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 98
حنبلی فقیہہ و مجتہد امام ابن تیمیہؒ(متوفی ۷۲۸ھ)فرماتے ہیں:
الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف علی ماحدث بہ عنہ بعد النبوۃ من قولہ و فعلہ واقرارہ فان سُنّتہ ثبتت من ھذہ الوجوہ الثلاثۃ(۵)
’’حدیث نبویؐ سے مراد آپؐ کا وہ قول‘ فعل اور تقریر ہے جوکہ آپؐ سے نبوت کے بعد صادر ہوا ہو۔پس آپؐ ‘کی’ سُنّت‘ ان تین صورتوں سے ثابت ہوتی ہے۔‘‘
سلفی فقیہہ و مجتہد امام شوکانی ؒ(متوفی۱۲۵۰ھ)[1]لکھتے ہیں:
واما معناھا شرعا أی فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وفعلہ وتقریرہ(۶)
’’اور سُنّت کا شرعی معنی یعنی اہل شرع کی اصطلاح میں’ سُنّت‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول‘ فعل اور تقریر کوکہتے ہیں۔‘‘
سوال:بعض علماء نے سُنّت کے اصطلاحی مفہوم سے مراد ’سُنّت مؤکدہ و غیر مؤکدہ ‘ بھی لیا ہے۔لہٰذا آپ کی اس بات کاکیا مطلب ہے کہ’ ’سُنّت کا اصطلاحی مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقول‘ فعل اور تقریر ہے اور سُنّت کے اس مفہوم پر امت کا اتفاق بھی ہے‘‘؟
جواب:ہم یہ وضاحت پہلے کر چکے ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں’ سُنّت‘ کا لفظ سُنّت مؤکدہ‘ سُنّت غیر مؤکدہ اور سُنّت زائدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔اسی طرح عقائد کی کتب میں کسی عقیدے کو ’سُنّت‘ کہنے سے عموماً مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ عقیدہ بدعت نہیں ہے۔لیکن اہل سُنّت جب’ سُنّت‘ کے لفظ کو مصدرِ شریعت اورقانونی ماخذکے طور پر بیان کرتے ہیں تو ان سب کی مراد ایک ہی مفہوم ہوتا ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ‘ فعل اور تقریر ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ مصادرِ شریعت و مآخذ قانون اسلامی کی بحث فقہاء و علماء اصولِ فقہ کی کتابوں میں کرتے ہیں نہ کہ فقہ یا عقائد پر مبنی تصانیف میں۔لہٰذ ا اہل سُنّت میں جب بھی کوئی حنفی‘ شافعی‘ مالکی ‘ حنبلی ‘ ظاہری یا سلفی عالم دین ’سُنّت‘ کے لفظ کو مصدر شریعت کے معنی میں استعمال کرے گا تو اس کی مراد فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ‘ فعل اور تقریر ہی ہو گا۔
سوال:بعض عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت سے مراد آپؐ ‘
[1] محققین کے نزدیک پہلے یہ زیدی تھے بعد میں انہوں نے زیدیہ ( اہل تشیع کا ایک معتدل فرقہ ) کے عقائد و فروعات سے رجوع کر لیا تھا ۔شروع میں یہ زیدی تھے جبکہ بالآخر یہ سلفی المسلک کے پرجوش داعی و مبلغ تھے ۔ان کی کتاب ’’ التحف بمذہب السلف ‘‘ اور ’’ کشف الشبہات عن المشتبہات ‘‘ اس بات پر دلیل ہیں کہ وہ عقیدے میں سلفی تھے ۔اسی طرح ان کی کتاب ’’ القول المفید فی ادلۃ الاجتہاد و التقلید ‘‘ اور ’’ السیل الجرار ‘‘ یہ واضح کرتی ہیں کہ وہ فقہی آراء کے اختیار میں امام زیدی بن علی رضی اللہ عنہ کے مذہب کو چھوڑ کر اہل ہدیث کے منہج کو اختیار کر چکے تھے ۔