کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 97
سوال:اہل سُنّت کا لفظ جب آپ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آپ کی مراد کون سی جماعت ہوتی ہے؟ جواب:ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ فقہی مباحث میں جب اہل سُنّت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد صحابہؓ ‘‘تابعینؒ‘‘ تبع تابعینؒ‘‘ حنفیہ‘ شافعیہ‘ مالکیہ ‘ حنابلہ ‘ اہل الحدیث اور اہل الظواہر ہوتے ہیں اور ہمارے اس مضمون میں بھی اہل سُنّت سے مراد یہی گروہ ہیں۔ سوال:اہل سُنّت کے ہاں’سُنّت‘ کے لفظ کا اصطلاحی معنی کیا ہے؟ جواب:جمیع اہل سُنّت کے نزدیک ’سُنّت‘ سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ‘افعال و تقریرات ہیں۔معروف حنفی فقہاء علامہ کمال الدین ابن الہمام ؒ(متوفی۸۶۱ھ)اورعلامہ ابن امیر الحاج ؒ(متوفی۸۷۱ھ)لکھتے ہیں: (السنۃ)و ھی لغۃ(الطریقۃ المعتادۃ)محمودۃ کان أو لا۔۔۔(و فی الأصول قولہ علیہ السلام و فعلہ و تقریرہ)مما لیس من الأمور الطبیعیۃ(۲) ’’ ’سُنّت ‘کا لغوی معنی ایسا طریقہ ہے جس کے لوگ عادی ہوں چاہے وہ اچھاہو یا برا۔۔۔اور اصولِ فقہ میں ’سُنّت ‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول‘ فعل اور تقریر ہے جو طبعی امور کے علاوہ ہیں۔‘‘ شافعی فقیہہ امام زرکشیؒ(متوفی۷۹۴ھ)فرماتے ہیں: المراد ھنا ما صدر من الرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم من الأقوال والأفعال والتقریر و الھم وھذا الأخیر لم یذکرہ الأصولیون(۳) ’’یہاں یعنی اصولِ فقہ میں سُنّت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال‘ افعال‘ تقریرات اور کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہیں۔اس آخری قسم کو ’سُنّت‘ کی تعریف میںعموماً اصولیین نے بیان نہیں کیا ہے۔‘‘ مالکی فقیہہ امام شاطبیؒ(متوفی۷۹۵ھ)لکھتے ہیں: واذا جمع ما تقدم تحصل منہ فی الاطلاق أربعۃ أوجہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام و فعلہ و تقریرہ وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتھاد بناء علی صحۃ الاجتھاد فی حقہ وھذہ الثلاثۃ والرابع ما جاء عن الصحابۃ أو الخلفاء(۴) ’ ’سُنّت کے بارے میں ہم نے جو پیچھے بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’سُنّت‘ سے مطلق طور پر مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول‘ فعل اور تقریر ہے اور یہ تینوں یا تو وحی کی بنیاد پر ہوں گے یا آپؐ ‘کا اجتہاد ہو گا‘بشرطیکہ آپ کے لیے اجتہاد کرنے کا قول صحیح ہو۔یہ ’سُنّت‘ کی تین صورتیں ہیں اور اس کی چوتھی صورت صحابہؓ اور خلفائے راشدین کی سُنّت ہے۔‘‘