کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 84
مقصود طہارت اور جسم کی صفائی تھی۔اب یہی مقصد صابون اور شیمپو وغیرہ سے اچھی طرح حاصل ہوتا ہے تو کیا ان کا استعمال خلافِ سنت اور خباثت ہو گا؟ ایجادات سے استفادہ کی حیثیت ایک چیز جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھی اس کو استعمال کرنا خلافِ سنت نہیں ہے۔مثلاً آپؐ کے دور میں کرسی ‘ ٹیبل‘ چمچ‘گاڑی‘ لاؤڈ اسپیکر‘ گھڑی‘ کمپیوٹر‘ پنکھا‘ اے سی‘ریفریجریٹر‘ گیزر‘عینک‘ ہیٹر‘ٹیلی فون‘ موبائل‘بجلی‘ گیس‘ جہاز‘ ریل‘ بحری جہاز‘سکول ‘ کالج ‘ یونیورسٹی‘ جدید آلات حرب‘ ادویات‘ گولیاں ‘ انجکشن ‘ ہسپتال اور تمام میڈیکل سائنس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔کوئی بھی صاحب عقل ان اشیاء کے استعمال کو خلاف سنت یاخباثت نہیں کہہ سکتا ‘سوائے اس کے کہ جوجہالت کے اعلیٰ مراتب پرفائز ہو۔یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ان اشیائے جدیدہ کے وہ استعمالات جو کہ شریعتِ اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف ہوں ‘ یا وہ ایجادات مقاصد شریعہ کو فوت کرنے والی ہوں یعنی وہ انسان کے دین‘ جان‘ عقل‘ نسل‘ مال اور عزت کے فروغ اور حفاظت کے لیے نقصان دہ ہوں‘ ناجائز ہیں۔اگر کرسی کا استعمال خلافِ سنت ہے توپھر موبائل‘ بجلی ‘ گیس‘ فون‘ گاڑی‘ جہاز‘ گھڑی وغیرہ سب کا استعمال بھی خلافِ سنت ہے۔اگر اس طرح کے سطحی اصولوں کی روشنی میں سنت کے تصورات قائم کیے گئے تو ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ صحابہؓ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچے گا جس نے سنت سے اختلاف نہ کیا ہو۔اگر اس اصول کو درست مان لیاجائے تو تمام صحابہؓ(معاذاللہ!)مخالفین سنت ہیں ‘کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن’بَیْنَ الدُّفتین‘ موجود نہ تھا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک جگہ جمع کیا گیا‘تو صحابہؓ نے ایک ایسا کام کیا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیاتھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے صحابہؓ سے ان کے مصاحف لے کر جلوا دیے تھے ‘ یہ بھی ’’خلافِ سنت‘‘ کام تھا اور اکابر صحابہؓ نے اس کام میں حضرت عثمان ؓ کی معاونت کی تھی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن کے نہ تو تیس پارے تھے ‘ نہ ۵۴۵ رکوع تھے ‘ نہ احزاب تھے ‘ نہ اعراب و حرکات تھیں ‘حتیٰ کے نقطے اور رموزِ اوقاف بھی نہ تھے ‘اور یہ سب چیزیں تو خلفائے راشدین کے دور میں بھی نہ تھیں‘ بلکہ صحابہؓ کے زمانے کے بعد علماء نے ان کو قرآن پڑھنے میں سہولت و آسانی کے لیے لیے متعارف کروایا ‘ یہ سب بھی’’ خلافِ سنت‘‘ ہے‘ لہٰذا آج کے دور میں طبع ہونے والے ہر قرآن کی تلاوت ’’خلافِ سنت‘‘ ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ احادیث کی کتابیں تھیں ‘ نہ سیرت و تاریخ کی ‘ لہٰذا حدیث ‘ سیرت اور تاریخ کی کتابوں کو لکھنا‘ ان کے ترجمے کرنا ‘ ان ترجموں کو پڑھنا اور ان ترجموں سے علم حاصل کرنا سب خلاف سنت اور خباثت ہے‘ کیونکہ ان میں کوئی ایک فعل بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاصحابہؓ و تابعینؒسے ثابت نہیں ہے۔واللّٰہ المُستعان علٰی ما تَصِفُوْنَ۔ ٭ اسی نقطۂ نظر کی یہ انتہا ہے کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو کالج کی تعلیم دلواناخلافِ سنت