کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 83
تحصل إلا بالعود فانہ یجعل السواک بالعود سنۃ۔ولعل الراجح ان شاء اللّٰہ تعالی أن الفرشاۃ و المعجون تحصل بھما السنۃ لأن تنظیفھما للفم وتطھیرھما أبلغ من تطھیر وتنظیف العود۔وقد قال بعض أھل العلم بحصول السنۃ بالسواک بالإصبع والخرقۃ(۱۶۴)
’’جہاں تک مسواک کا معاملہ ہے تو اصل سنت یہی ہے کہ وہ پیلو کی نرم لکڑی کی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے منہ کی بدبو اچھی طرح دور ہوتی ہے اورو ہ ملائم بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی۔اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی منہ کی صفائی حاصل ہو جائے یا کوئی اور چیز مسواک سے بھی زیادہ اچھی طرح منہ صاف کرنے والی ہو تو جن علماء نے مقصود کو دیکھا تو ان کے نزدیک پیسٹ اور برش وغیرہ بھی مسواک کی جگہ کفایت کرتے ہیں ‘اور جن علماء نے مسواک کو تعبدی امور میں شمار کیا ہے تو ان کے نزدیک سنت صرف لکڑی کے استعمال میں ہے ‘لہٰذا ان کے نزدیک لکڑی استعمال کرنا ہی سنت ہے۔اور راجح مسلک ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی سنت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں لکڑی سے زیادہ اچھی طرح منہ کو صاف اور پاک کرنے والے ہیں۔بعض سلف صالحین کے نزدیک انگلی اور پرانے کپڑے کو رگڑنے سے بھی مسواک کی سنت حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘
اب تو ایسے ٹوتھ پیسٹ بھی آ گئے ہیں جو کہ مسواک کے قدرتی اجزا پر مشتمل ہیں جیسا کہ دبئی سے ’’سواک‘‘ کے نام سے مسواک کے قدرتی اجزاء پر مشتمل ایک ٹوتھ پیسٹ بنایا گیا ہے۔یہ بات واضح رہے کہ برش کے ساتھ ساتھ مسواک کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے ‘کیونکہ مسواک کرنے کے بہت سے ایسے مواقع سنت سے ثابت ہیں جن میں برش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ))(۱۶۵)
’’مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ میں اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔‘‘
لہٰذا ہر نماز کے وقت مسواک کرنا سنت ہے۔
بعض صحیح احادیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب کتا تمہارے کسی برتن میں اپنا منہ ڈال دے تو تم اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤاور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوؤ۔اب اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصود برتن کی صفائی ہے اور اگر برتن کی صفائی آج کل صابون یاسَرف وغیرہ سے اچھی طرح ہوتی ہے تو ہمیں مٹی کی جگہ وہی استعمال کرنا چاہیے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی صابون سے غسل نہیں کیا یا سر کے بالوں کے لیے شیمپو استعمال نہیں کیا۔صحیح روایات میں ہے کہ جب آپؐ کے زمانے میں کسی مردے کوغسل دیاجاتا تھا تو پانی میں بیری کے پتے اور کافور(خوشبو)ملا دی جاتی تھی اور اس سے