کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 81
کر لیا تھا اور یہ کہہ رہے تھے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا:لوگ آپؐ کے سامنے ہجوم نہیں کرتے تھے‘ لیکن جب انہوں نے آپؐ پر اکٹھ کر لیاتو آپؐ نے سوار ہو کر سعی کی‘ جبکہ پیدل سعی کرنا زیادہ افضل ہے۔‘‘
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وھذا الذی قالہ ابن عباس مجمع علیہ اجمعوا علی أن الرکوب فی السعی بین الصفا والمروۃ جائز وإن المشی افضل منہ إلا لعذر و اللّٰہ أعلم(۱۵۹)
’’اور جوبات حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہی ہے اس پر اجماع ہے۔علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کے دورن سوار ہونا جائز ہے لیکن پیدل چلنا زیادہ افضل ہے ‘سوائے اس کے کہ کوئی عذر لاحق ہو۔‘‘
(۱۱)مقصد سے مربوط فعل
بعض اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل میں اصلاً مقصود وہ فعل نہیں ہوتابلکہ اس فعل سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہوتا ہے۔جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ مسواک کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس سنت کا مقصود منہ کی صفائی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((اَلسِّوَاکُ مَطْھَرَۃٌ لِلْفَمِ مَرْضَاۃٌ لِلرَّبِّ))(۱۶۰)
’’مسواک کرنا منہ کی صفائی کا ذریعہ ہے اور ربّ کی رضا ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسواک کی سنت میں اصل حکمت طہارت ہے نہ کہ دانتوں پر کوئی لکڑی پھیرنا۔امام طیبیؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مسواک کی حکمت منہ کی صفائی ہے اور پھر منہ کی صفائی کو اللہ کی رضا قرار دیا گیا ہے۔مسواک عربی زبان کے اعتبار سے اسم آلہ کا وزن بنتا ہے اور اس کا معنی ’مَایُستاک بِہٖ‘ ہے‘یعنی جس کے ذریعے کسی چیز کو رگڑا جائے یا مَلا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسواک لکڑی ہی کی ہوتی تھی اور مسواک میں سب سے افضل پیلو کی مسواک ہے ‘جیسا کہ صحیح روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کُنْتُ اَجْتَنِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم سِوَاکًا مِنَ الْاَرَاکِ(۱۶۱)
’’میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیلو کی مسواک چنا کرتا تھا۔‘‘
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اپنی زندگی کے آخری لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کجھور کی تازہ شاخ کومسواک کے طور پر استعمال کیا تھا جبکہ آپؐ کا سرمبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔بعض علماء نے