کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 79
((فَاِنَّــہٗ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ شَاْنُـکُمُ الَّـیْلَۃَ وَلٰـکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ صَلَاۃُ اللَّـیْلِ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا))(۱۵۴) ’’تمہاری رات کی کیفیت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے ‘لیکن مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم پر رات کی نماز(یعنی تراویح)فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ(اور گناہ گار ہو)۔‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ((فَلَمْ یَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَیْکُمْ اِلاَّ اَنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ))(۱۵۵) ’’اور مجھے تراویح کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے باہر نکلنے کے لیے سوائے اس چیز کے اور کسی امر نے نہیں روکا کہ مجھے یہ اندیشہ تھاکہ وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہو ا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین دن تروایح کی جماعت کروائی ہے ‘ باقی دنوں میں آپؐ اور صحابہؓ نے تراویح کی نماز انفرادی طور پر پڑھی ہے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا ہے۔اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تو صرف تین دن جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ہے تو وہ غلطی پر ہے ‘کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ مکمل رمضان میں تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔لہٰذا زیادہ افضل یہ ہے کہ تمام رمضان میں تراویح کی نماز ادا کی جائے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں عبد الرحمن بن عبدالقاریؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمرؓ کے ساتھ مسجد نبوی میں گیا تو حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ صحابہؓ ‘الگ الگ ٹکڑیوں میں نماز پڑھ رہے ہیں۔بعض صحابہؓ‘ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے‘ جبکہ بعض کچھ دوسروں کو نماز پڑھا رہے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب یہ منظر دیکھا تو سب کو جمع کر کے ایک جماعت بنا دیا اور حضرت اُبی بن کعب ؓ‘ کو قاری مقرر کر دیا۔اگلی رات جب حضرت عمرؓ دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپؓنے صحابہؓ ‘کو ایک جماعت میں نماز پڑھتے دیکھ کر کہا: نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ‘ وَالَّتِیْ یَنَامُوْنَ عَنْھَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ یَقُوْمُوْنَ‘ یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ‘ وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ اَوَّلَـہٗ(۱۵۶) ’’یہ کیا ہی خوب بدعت(یعنی نیا کام)ہے!اور جو لوگ سو رہے ہیں وہ ان قیام کرنے والوں سے افضل ہیں۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی مراد وہ سونے والے لوگ تھے جو آخر رات میں قیام کرتے تھے اور عام لوگ اول وقت میں قیام کرتے تھے۔‘‘ بعض اوقات ایسے کام کو کرنا جائز نہیں ہوتا جس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا ہو لیکن آپؐ نے اس کو بالفعل نہ کیا ہو‘اور اس کا علم احوال و قرائن سے ہوتا ہے ‘جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے