کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 78
صحابہ رضی اللہ عنہم کا خاص طور پر خلفائے راشدین اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کھڑے ہو کر پانی پینا یہ واضح کرتا ہے کہ امام ابن حزمؒ کا نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت عائشہؓ وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ ‘بھی کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے‘ لہٰذاعذر والا قول درست نہیں ہے ‘کیونکہ عذر تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔علاوہ ازیں حضرت علیؓ کی روایات سے کراہت والے قول کا غلط ہونا بھی واضح ہوتا ہے‘ کیونکہ حضرت علی ؓ نے یہ کہہ کر کھڑے ہو کر پانی پیا کہ لوگ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ‘یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مکروہ یا دین میں ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔علاوہ ازیں حضرت علیؓ نے بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔امام ابو بکر الاثرم ؒکے نزدیک جواز والی احادیث راجح جبکہ نہی والی مرجوح ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مرجوح حدیث پر عمل نہیں ہوتا‘ لیکن صحابہؓ نے نہی والی احادیث پر بھی عمل کیا ہے۔یہی معاملہ امام ابن شاہینؒ کے اس دعویٰ کا ہے کہ نہی والی احادیث منسوخ ہیں ‘جبکہ صحابہؓ نے آپؐ‘ کی وفات کے بعد نہی والی روایات پر بھی عمل کیا ہے۔اس لیے ’موطأ‘ میں حضرت عائشہؓ اور حضرت سعد بن وقاص ؓسے مروی ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔پس بظاہر یہی قول درست معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐنے کھڑے ہو کر پانی پینے سے شرعی حکم کے طور پر منع نہیں کیا بلکہ اس کے بعض طبی نقصانات کی وجہ سے اُمت کو اس طرح پانی پینے سے سختی سے منع فرمایا جیسا کہ ایک باپ بعض اوقات اپنے بیٹے کو کسی دنیاوی معاملے میں نقصان سے بچانے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں کوئی حکم جاری کرتا ہے اور اس میں اصل وجہ باپ کی اپنے بیٹے سے پدرانہ محبت ہوتی ہے نہ کہ کوئی شرعی حکم۔یہی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت سے بھی تھی۔اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں: کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَاْتِیْ مَسْجِدَ قُـبَائٍ کُلَّ سَبْتٍ مَاشِیًا وَرَاکِبًا‘ وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَفْعَلُہٗ(۱۵۳) ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے دن مسجد قبا میں پیدل اور سوار دونوں طرح آتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایساہی کرتے تھے۔‘‘ (۹)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بعض پسندیدہ افعال بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام بطور عبادت کرنے کا ارادہ کرتے ‘لیکن آپؐ وہ کام کسی سبب سے بالفعل نہیں کرتے تھے ‘تاہم آپؐ ‘کی یہ خواہش ہوتی کہ آپؐ وہ کام کریں۔اس معاملے میں اگرچہ آپؐ نے ایک کام نہیں کیا لیکن جس کے کرنے کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کی تھی تو وہ کام اُمت کے لیے مستحب ہو گا۔صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں صرف تین دن تراویح پڑھائی تھے اور چوتھے دن صحابہؓ‘ آپ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپؐ تراویح پڑھانے کے لیے اپنے حجرے سے باہر تشریف نہ لائے۔فجر کی نماز کے بعد آپؐ نے صحابہؓ‘ کو بتلایا: