کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 75
أو عن رأی و اجتھاد حتی یشارکوہ فیہ…ولو کان فعل الرسول لا یکون إلا عن وحی ما کان لذلک السؤال وجہ‘ وما صح منہ موافقتھم و ترک الوحی(۱۴۲)
’’صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن بدر کے میدان میں ’عدوئہ دنیا‘کے قریب پڑاؤ ڈالاتو حضرت حباب بن منذر ؓ نے سوال کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!کیا یہاں پر پڑاؤ ڈالنا آپؐ‘ کی ذاتی رائے ہے ‘یا آپ ؐ‘کو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام کا حکم دیا ہے اور ہمارے لیے اس مقام سے آگے یا پیچھے ہونا جائز نہیں ہے‘ یا یہ کوئی جنگی چال اور تدبیر وغیرہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ ایک جنگی چال اور تدبیر ہے۔حضرت حبابؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!پھر یہ ہمارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے ‘بلکہ آپ لوگوں کو اٹھائیں ‘ہم مشرکین مکہ کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں تاکہ ہم مشرکین اور ان کے پانی کے درمیان حائل ہو جائیں۔۔۔آپ نے ان کی بات سن کر کہا:حبابؓ نے اچھی رائے دی ہے اور پھرآپؐ نے ان کی رائے پر عمل کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا محض فعل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپؐ نے وہ کام تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہو۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپؐ کے ہر فعل کو وحی نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپؐ کے بعض افعال وحی پر مبنی ہوتے تھے مثلاً وہ افعال کہ جن میں آپؐ‘ نے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے اور بعض افعال آپؐ‘کا اجتہاد اور ذاتی رائے ہوتی تھی۔اسی لیے حضرت حبابؓ نے صحابہؓ‘ کی موجودگی میں آپ ؐسے یہ سوال کیاتھا کہ آپ ؐ‘کا اس جگہ پڑاؤ ڈالنا وحی کی وجہ سے تھا کہ جس پرانہیں سرتسلیم خم کر دینا چاہیے یا آپؐ‘ کی ذاتی رائے اور اجتہادتھا کہ جس میں صحابہؓ ‘بھی آپؐ‘کو مشورہ دے سکتے تھے۔۔۔اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل وحی ہوتا تو صحابیؓ کبھی بھی یہ سوال نہ کرتااور نہ ہی آپ وحی کو چھوڑ کر ایک صحابیؓ کی رائے پر عمل کرتے۔‘‘
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو اگر اللہ کی تصویب حاصل ہو جائے تو پھر وہ وحی بن جاتا ہے۔مثلاً آپؐ نے کسی دینی مسئلے میں اجتہاد کیا‘ اب اللہ کی طرف سے آپؐ کے اس اجتہاد پرخاموشی ہے تو آپ کا یہ اجتہاد اللہ کی تقریر کہلائے گا اور وحی الٰہی ہو گا۔
ابن العربی ؒنے ’احکام القرآن‘ میں اس روایت کو ’ثابت ‘ کہا ہے۔(۱۴۳)جبکہ علامہ البانی ‘ؒ نے اسے ’فقہ السیرۃ ‘ میں’ضعیف‘ کہا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیرؒ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔
(۸)افعالِ مختلفہ یا متنوعہ
بعض اوقات ایک ہی مسئلے میں آپؐ سے دو یا دو سے زائد افعال مروی ہوتے ہیں جبکہ کوئی امتی ان