کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 74
طرح کا حکم آپ کی اُمت کے بارے میں بھی ہے۔‘‘
(۷)تجربہ و مشاہدہ سے متعلقہ افعال
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپؐ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں:
ما صدر عنہ بمقتضی خبرتہ الانسانیۃ فی الأمور الدنیویۃ‘ مثل:تنظیم الجیوش‘ و القیام بما یقتضیہ تدبیر الحرب‘ و شؤون التجارۃ و نحو ذلک۔فھذہ الأفعال لا تعتبر تشریعا للأمۃ‘ لأن مبناھا التجربۃ لا الوحی‘ والرسول صلی اللّٰه علیہ وسلم لم یلزم المسلمین بھا و لم یعتبرھا من قبیل تشریع الأحکام(۱۴۱)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپؐ سے امور دنیویہ میں انسانی خبروں اور تجربات سے حاصل شدہ علم کی بنا پر صادر ہوئے ہیں ‘مثلاً لشکروں کو منظم کرنا‘ جنگی معاملات کی تدبیر اور تجارت سے متعلقہ معاملات وغیرہ‘ تو یہ تمام افعال ایسے ہیں جوکہ اُمت کے لیے شریعت نہیں ہیں‘ کیونکہ آپؐ کے ان امور کی بنیاد وحی کے علم کی بجائے انسانی تجربات کے علم پر ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایسے افعال کو اُمت کے لیے لازم بھی قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی ان کو شرعی احکام میں شمار کیا ہے‘‘۔
علامہ احمد العدوی ؒ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے افعال کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثبت فی الصحیح:أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم فی یوم بدر جاء إلی أدنی ماء من بدر فنزل عندہ‘ فقال الحباب بن المنذر:یا رسول اللّٰه أرأیت ھذا المنزل‘ أ منزلا أنزلکہ اللّٰه لیس لنا أن نتقدمہ و لا نتأخر عنہ‘ أم ھو الرأی و الحرب و المکیدۃ؟قال:بل ھو الرأی و الحرب و المکیدۃ۔فقال:یا رسول اللّٰہ لیس ھذا المنزل‘ فانھض بالناس نأتی أدنی ماء من القوم فننزلہ‘ ثم نغور ما وراء‘ہ إلخ ما قال‘ فقال لہ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم:لقد أشرت بالرأی و عمل برأیہ‘ و ھذا یدل علی أن محض الفعل لا یفید أنہ قربۃ۔ووجہ الدلالۃ أن الصحابۃ لا یرون أن کل فعل للنبی صلی اللّٰه علیہ وسلم عن وحی من اللّٰه تعالی‘ بل منہ ما ھو مستند إلی وحی کالفعل الذی یظھر فیہ قصد القربۃ‘ ومنہ ما ھو مبنی علی رأی و اجتھاد‘ ولذلک سأل الحباب بن المنذر بجمع من الصحابۃ عن المنزل الذی نزل النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم ھل النزول فیہ عن وحی حتی یذعنوا لہ‘