کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 72
آپؐ نے اپنے اس فعل کے ذریعے اللہ کے قرب کا ارادہ کیا ہو۔آپؐ کے ایسے افعال(یعنی جو بیان نہیں ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہے)کی شرعی حیثیت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔اب سریج‘ ؒ‘ اصطخری‘ؒ‘ ابن ابی ہریرہ ‘ ابن خیزان‘ حنابلہ او ر معتزلہ کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال آپؐ اور اُمت دونوں کے لیے وجوب کا درجہ رکھتے ہیں۔علماء کادوسرا قول یہ ہے کہ آپؐ کے ایسے افعال مندوب ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ امام شافعیؒ کا موقف ہے ‘ امام الحرمین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔تیسرا قول یہ ہے کہ آپؐ کے ایسے افعال مباح ہیں اور چوتھا توقف کا ہے ‘ اس کو شوافع کی ایک جماعت امام سیرفی‘ؒ اور امام غزالی‘ؒ وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور معتزلہ کی ایک جماعت کابھی یہی نقطہ نظر ہے۔۔۔ان اقوال کے بالمقابل بہترین قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کے کسی سابق خطاب کے بیان ہونے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور آپؐ نے ان افعال کے ذریعے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے تو آپ کے ایسے افعال آپؐ کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب ‘اور یہ ترکِ فعل پر فعل کو ترجیح دینا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اباحت جو کہ رفع حرج کے لیے کسی کام کو کرنے اور نہ کرنے کے درمیان برابری کا نام ہے ‘ آپؐ اور آپؐ‘ کی اُمت دونوں سے خارج ہے۔‘‘ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی نے بھی ’’ اصول الفقہ الاسلامی‘ ‘ میں علامہ آمدی کے اس موقف کو ترجیح دی ہے کہ آپؐ کے وہ افعال جن میں آپؐ نے تقرب اِلی اللہ کی نیت کی ہے وہ اُمت کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب ہوں گے ‘نہ کہ مباح ‘چاہے آپؐ‘ کا وہ فعل بظاہر کسی اَمر کا بیان یعنی وضاحت نہ بھی معلوم ہوتا ہو۔علامہ آمدیؒ نے باقی اقوال کے قائلین کے دلائل کا بیان اور ان کا کافی و شافی رد اپنی کتاب ’الاحکام‘ میں کر دیا ہے ‘تفصیل کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ (۶)فعل برائے بیانِ جواز بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل امور شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن اس فعل سے آپؐ‘ کا مقصود صرف یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ کام جائز ہے نہ کہ آپؐ اس فعل کو ثواب کی نیت یا درجات کی بلندی کے لیے کرتے ہیں۔مثلاً ایک روایت کے الفاظ ہیں: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصْبِحُ جُنْبًا مِنْ غَیْرِ حُلْمٍ ثُمَّ یَصُوْمُ(۱۳۹) ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صبح اس حال میں کرتے تھے کہ آپؐ ‘جنبی ہوتے تھے اور آپ کی یہ جنابت احتلام سے نہ ہوتی تھی۔پھرآپؐ اسی حالت میں(بغیر غسل کیے)روزہ رکھ لیتے تھے۔‘‘ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا ایک ایسی سنت ہے جو کہ باعث اجر و ثواب ہے اور اس سے آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں تو بلاشبہ یہ شخص غلطی پر ہے۔شارحین حدیث نے اس