کتاب: اہل سنت کا تصور سنت - صفحہ 71
فعل بیان ہو گااور آپؐ اس بیان کو ضرورت کے وقت سے زیادہ مؤخر کرنے والے نہ ہوں۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا‘ اللہ کے حکم’’ پس تم ان دونوں کے ہاتھ کاٹو‘‘ کابیان ہے۔اسی طرح آپ کا کہنیوں تک تیمم کرنا اللہ کے حکم’’ پس تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو‘‘ کا بیان ہے‘ اور اسی طرح اور بھی آیات ہیں۔اور بیان وجوب ‘ ندب اور اباحت میں مبیّن کے تابع ہے۔‘‘
عربی زبان میں ’ید‘ کا لفظ انگلیوں سے لے کے کندھے تک بولا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل
سے قرآن کے دونوں مقامات پر لفظ ’ید‘ کی وضاحت کی ہے اورآپؐ کی یہ عملی وضاحت ان آیات کا بیان ہے۔
(۵)فعلِ متردَّد
بعض اوقات آپ کا فعل اُمورِ شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن آپؐ کے اس فعل کے بارے میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ قرآن کے کسی حکم یا آپؐ ‘کی ہی کسی قولی سنت کا بیان ہے یا نہیں ہے۔اگر دلائل و قرائن سے یہ بات واضح ہو جائے کہ آپؐ نے یہ کام تقرب اِلی اللہ کی نیت سے کیا ہے تو پھر آپؐ کے ایسے فعل کا کیا حکم ہے ‘ اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔علامہ آمدی ؒ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما ما لم یقترن بہ ما یدل علی أنہ للبیان لا نفیا و لا إثباتا فأما أن یظھر فیہ قصد القربۃ فقد اختلفوا فیہ فمنھم من قال أن فعلہ علیہ السلام محمول علی الوجوب فی حقہ و فی حقنا کابن سریج و الأصطخری وابن أبی ھریرۃ وابن خیزان والحنابلۃ وجماعۃ من المعتزلۃ ومنھم من صار إلی أنہ للندب وقد قیل أنہ للشافعی وھو اختیار إمام الحرمین و منھم من قال إنہ للإباحۃ و ھو مذھب مالک ومنھم من قال بالوقف و ھومذھب جماعۃ من أصحاب الشافعی کالسیرفی والغزالی وجماعۃ من المعتزلۃ.۔۔والمختارأن کل لم یقترن بہ دلیل یدل علی أنہ قصد بہ بیان خطاب سابق فإن ظھر فیہ قصد القربۃ إلی اللّٰه تعالی فھو دلیل فی حقہ السلام علی القدر المشترک بین الواجب و المندوب وھو ترجیح الفعل علی الترک لا غیر و إن الإباحۃ وھی استواء الفعل والترک فی رفع الحرج خارجۃ عنہ وکذلک عن أمتہ(۱۳۸)
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جن کے بارے میں نفی یا اثبات میں کوئی دلیل ایسی موجود نہ ہو کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ بیان ہیں یا نہیں تو ایسے افعال کی دو قسمیں ہیں۔(پہلی قسم تو یہ ہے کہ)